عظیم پیغمبر کی عظیم قربانی
دین اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر ہے جن میں فریضہ حج اسلام کا ایک اہم اور صاحب استطاعت پر لازمی رکن ہے اس عظیم و مقدس فرض کی ادائیگی کے ذریعے حجاج اکرام سنت ابراہیمی کی اتباع کرتے ہوئے اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم ؑنے اپنے فرزند ارجمند حضرت اسمائیل ؑ کی اپنے رب عظیم کے سامنے پیش کر کے عبدیت کا مخلصانہ اور عاجزانہ اظہار فرمایا ۔عیدالاضحی حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمائیل ؑ کی اسی عظیم اور بے مثال قربانی کی یاد تازہ کرنے کیلئے تمام عالم اسلام میں 10 ذی الحج کو بڑے جوش و جذبے سے منائی جاتی ہے قربانی کا لفظ قربان سے نکلا ہے عربی زبان میں قربانی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے خواہ وہ ذبح ہو یا صدقہ و خیرات لیکن عرف عام میں یہ لفظ جانور کے ذبح کے لئے بولا جاتا ہے اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل قربانی ہے جو ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے عید قربا ں پر جانور ذبح کرنے کا مقصد اس عزم کا اعادہ کرنا ہوتا ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی پسندیدہ چیز کو قربانی کرنے کی روح بیدار رہے گی اور کبھی دنیا کی محبت اسکی اطاعت میں آڑے نہیں آئے گی حضرت ابراہیم ؑ کو بھی اللہ نے اپنی پسندیدہ چیز کو قربان کرنے کا حکم دیا تھا اور حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کا حکم پورا کیا ،لیکن ہمارے معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ اس اہم فریضہ کو محض ایک دنیاوی تہوار سمجھ کر ایسے کام شروع ہوگئے ہیںجس سے اس فریضے کی ادائیگی کا مقصد پورا نہیں ہو پاتا روح ِعبادت پر نمود نمائش غالب آچکی ہے دنیاوی ہوس نے شرعی فریضے کی ادائیگی کیلئے کسی نے جانور وں کی خریدو فروخت کو حصول دولت کا ذریعے بنا دیا ہے تو کسی نے ریا ،نام و نمود کو تر جیح دے دی ہے اور اگر کسی محلے میں بھاری بھرکم جانور آجاتا ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ میں بھی اس سے اچھا اور بڑا جانور خریدونگا اور پھر پورے محلے میں اس بھاری بھرکم جانور کو نمائش کیلئے پیش کیا جاتا ہے اس کام میں ہمارے الیکٹرونک میڈیا نے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے افسوس کہ اب سنت ابراہیمی کو پس پست ڈال کر ہم صرف دوسروں کی دیکھا دیکھ قربانی کر رہے ہوتے ہیںبہت سے لوگوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ ہم جو قربانی کرتے ہیں اس کے پیچھے کیا واقعہ ہے ہمارے میڈیا کو چاہیئے کہ وہ لوگوں میں سنت ابراہیمی سے متعلق شعور پیدا کرے ۔ہمیں چاہیئے کہ ہم قربانی کرتے وقت حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمائیل ؑ کی وہ عظیم قربانی کوذہن میں رکھتے ہوئے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے قربانی کریں کیونکہ اللہ تک قربانی کا خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تک ہماری نیت پہنچتی ہے اور اللہ کے یہاں صرف تقویٰ دیکھا جاتا ہے ۔ایک صحابہ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ ہمیں اس قربانی کا کیا ثواب ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا قربانی کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی صحابہ نے پھر عرض کیا کہ بھیڑ دنبے کی اون میں ہمیں کیا ملے گا آپ ﷺ نے فرمایا کہ اون کے بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی یہ عظیم قربانی صرف قربانی نہیں تھی بلکہ ایک سبق تھا ہمارے لئے کہ ہمیں اپنے اندر کی انا کی قربانی دینی ہوگی ہمیں اپنے سخت لہجے کی قربانی دینی ہو گی آج ہم سب عہد کریں کہ اس قربانی کے ساتھ ہم اپنے اندر کی انا کو بھی قربان کریں گے اور ہر ایک کے ساتھ خوشیاں بانٹیں گے چاہے سامنے والا امیر ہو یا غریب۔ …سید مبشر امیر۔ کراچی