نوید کریم چودھری سے ایک عرصے بعد ملاقات ہوئی۔ عید کے روز ضرور جاتا ہوں مگر وہ کہیں آگے عید ملن پارٹی پر نکلے ہوتے ہیں۔ ماڈل ٹائون کے پرانے رہائشی ہیں ، خاندانی رشتے دارا لگ اور دوست ا حباب الگ۔ ایک طرف ان کے والد سیٹھ عبدالکریم کے پرستار اور دوسری طرف ان کے سسر چودھری سردار محمد آئی جی پولیس کے چاہنے والے۔جب بھی ان کے پاس جائیں وہ ایک محفل جمائے ہوتے ہیں ۔ ان کے والد صاحب نے اپنے دور میں فکر محفلیں برپا کیں، ان میں اشفاق احمد۔ چودھری سردار محمد ، محمد رفیق ڈوگر اور مجیب شامی شامل ہوتے۔ ان میں خوب منطق بگھاری جاتی۔ اب ان سے ملنا ہوا تو انہوںنے خبر دی کہ ان کا بیٹا عبداللہ لندن میں بزنس کی اعلی تعلیم کے لئے گیا ہے۔تعلیمی نتائج تو خوش کن ہیں مگر وہ اللہ کے فضل سے اچھے ڈیل ڈول کا مالک ہے بالکل محمدعلی کلے کی طرح۔اور کالج کے باکسنگ کے مقابلوںمیں سب حریفوںکو تین سال سے شکست دے رہا ہے۔ اس سے مجھے برطانیہ کے عامر خان یادآ گئے جو باکسنگ میں اپنا لوہا منو ا چکے ہیں اور ایک مرتبہ جنرل راحیل شریف کی خصوصی دعوت پر پاکستان بھی آئے،ان کی آمد سے یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ پاکستان میں ایسی بھی کوئی دہشت گردی نہیں کہ غیر ملکی اسٹارز یہاں قدم نہ رکھ سکیں، عامر خان بڑے طمطراق سے ا ٓئے اور جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملے۔ عامر خان پاکستان کے لئے اعزاز کا باعث ہیں اور اب عبداللہ بھی اسی میدان میں آگے بڑھتا رہا توو ہ عامر خان کی طرح پاکستان کے وقار کو بلند کرے گا۔ اور ملک کا نام روشن کرے گا۔
میرے قارئیں نوید کریم چودھری کے نام سے اچھی طرح روشناس ہیں ، وہ بڑے جی دار انسان ہیں، اور چودھری سردار محمد فائونڈیشن کی تقریبات کااہتمام کرتے رہتے ہیں ،والد سیٹھ عبد الکریم چودھری کی طرف سے اللہ نے انہیں جودو سخا کی نعمت سے نواز ہے ۔ اپنی زندگی میں سیٹھ کریم صبح سویرے اپنے ڈیری فارم کا سارا دودھ گلاب ویوی کے مریضوں کی نذر کرتے رہے ہیں۔ ٹی بی کے مریضوں کو دودھ سے اللہ شفا عطاکرتا ہے۔ ایثار کا یہ سلسلہ کوئی چالیس برس سے جاری ہے۔ اب نوید کریم چودھری نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے وہ بڑی عید پر اپنی قربانی کا گوشت اور کچھ دوستوں کی قربانیوں کا گوشت جمع کرتے ہیں اور ان کی دیگیں پکوا کر شہر کے تمام ہسپتالوں میں مریضوں کے لواحقین میں تقسیم کرتے ہیں، عید کے روز عام تندوراور چھوٹے ہوٹل بند ہوتے ہیں اس لئے مریضوں کے لواحقین کو کھانے پینے کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر نوید کریم نے ان مشکلات کو ختم کر دیا ہے اور بڑی عید کے تینوںدنوں میں گوشت کے پکوان ہسپتالوں میں لے جا کر تقسیم کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران وہ گلاب دیوی میں لوگوں کے لئے سحری کا بند و بست کرتے ہیں۔ اس لئے انہیں کئی رضاکاروں کی ضرورت ہے چنانچہ ہمارے ایک صحافی بھائی شبیر احمد عثمانی بھی ساری رات جاگ کر اس نیکی میں شامل ہوتے ہیں۔پہلے رات کی تراویح اور پھر سحری، یہ نیکی بھی ہے مگر اس میں مشقت بھی ہے ۔شاعر کہتا ہے کہ مگر اس میںلگتی ہے محنت زیادہ ۔ نیکی کرنا آسان کام نہیں، ڈاکٹر آصف محمود جاہ زلزلے۔ سیلاب اور قحط کے علاقوں میں پہنچتے ہیں اور بار بار پہنچتے ہیں۔ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر۔ خدا مہر باں ہو گا عرش بریں پر۔
باتوں باتوں میں میںنے نوید کریم کی توجہ ڈاکٹر شہر یار خان کے کینسر ہسپتال کی طرف مبذول کروائی تاکہ وہ ا س کارخیر میں بھی حصہ ڈالیں۔ میںنے انہیں بتایا کہ میرے ایک جاننے والے ڈاکٹر محمو دشوکت اس ہسپتال کے مہمان خانے کے اخراجات کا بیڑہ اٹھا چکے ہیں ۔یہ پانچ سو لوگوں کے لئے کافی ہو گا مگر ڈاکٹر شہر یار خان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس چار سو مریض ہوں گے تو ہر ایک کے ساتھ دو رشتے دار بھی ہوں تو یہ تعداد آٹھ سو سے تجاوز کر جائے گی ۔ یہ کہنا تھا کہ حاضرین میں سے اٹھ اٹھ کرلوگوںنے ڈاکٹر صاحب کو چیک دینے شروع کر دیئے، امریکہ سے آنے والے میرے دوست مشتاق چودھری نے بھی جیب سے چیک بک نکالی اور اس میں بڑی رقم لکھ کر چیک ڈاکٹر شہر یار خان کو دے دیا ، میری باتیں سن کر نوید چودھری نے بڑی متا نت اور عاجزی سے بتایا کہ یہ ہسپتال رائے ونڈ روڈ سے ہٹ کر ہے اور اس تک پہنچنے کا راستہ بہت تنگ تھا ، جب انہیں اس مسئلے کا پتہ چلا تو انہوںنے ہسپتال سے ملحقہ اپنی بارہ ایکڑ اراضی میں سے دس فٹ جگہ اور چھوڑ دی جس کے بعد اب ہسپتال تک پہنچنے کے لئے ایک فراخ راستہ بن جائے گا۔ ڈاکٹر شہر یار خان کا ہسپتال اس اعتبار سے منفردہے کہ یہ بیک وقت چار سو مریضوں کو داخل کر سکے گا۔ اس میں پہنچنے والے کسی مریض کو علاج سے انکار نہیں کیا جائے گا۔ پھر بڑی بات یہ ہے کہ ہسپتال میں چار بنکر تعمیر ہو چکے ہیں جہاں آپریشن کے بعد مریضوں کو شعائیں لگائی جائیں گی۔ آج ملک میں کسی مریض کو شعائیں لگانے کی ضرورت پڑے تو اسے سال چھ ماہ کا انتظار کرنا پڑتا ہے مگر ا س ہسپتال کی تکمیل کے بعد انتظار کی زحمت ختم اور یہ سارا علاج بالکل فری ا ور فی سبیل اللہ کیا جائے گا،اس ملک میں اللہ کے ایسے بندے موجود ہیں جو دوسروں کی تکلیف پر تڑپ جاتے ہیں۔ یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں، کہ کام ا ٓئے دنیا میں انساں کے انساں۔ وزیر اعظم عمران خان کو حیرت ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ خیرات اور سب سے کم ٹیکس دیا جاتا ہے تو اس کی وجہ اندھے کی سمجھ میںبھی آ جاتی ہے کہ خیرات دینے والوں کو اعتماد ہے کہ ان کا پیسہ وہیں خرچ ہو گا جس مقصد کے لئے عطیہ کیا گیا مگر ٹیکس دینے والوں کو یقین ہے کہ ان کے پیسے سے لندن، فرانس اسپین امریکہ میںمحلات بنائے جائیں گے ا ور سوئس اکائونٹ بھرے جائیں گے، اقامے لئے جائیں گے۔ آف شور کمپنیاں بنیں گی۔۔ا سلئے لوگ ٹیکس دینے سے کتراتے ہیں کہ ریاستی مشینری بد دیانت اور چور اور ڈاکو ہے۔خیرات لینے والے ان برائیوں سے مبرا ہیں۔
نوید کریم چودھری بھی اپنی استطاعت سے بڑھ کر اللہ کی راہ میں خیرات کرتے ہیں ، اگر ان کے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں تو ان کے ڈرائیوروں کے بچے بھی وہیں داخل ہیں۔ان کا کوئی ملازم کسی مرض کا شکار ہوجا ئے تواس کی مرضی کے ہسپتال میں اس کا علاج کروایا جاتا ہے۔ یہ بڑے دل گردے کی بات ہے ۔ خدا ایسی توفیق کسی کسی کو دیتا ہے۔مگر نوید کریم چودھری اپنا کام خاموشی سے کئے چلے جاتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ ان سطور کو بھی نہ پڑھیں لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ جو کوئی یہ کالم پڑھے گا،ا س کے دل میں اللہ ہمدردی کے جذبات ضرور موجزن کر ے گا۔ میری دعا ہے کہ عبداللہ تعلیم کے میدان میں بھی جوہر دکھائے اور باکسنگ میں بھی اپنا سکہ جمائے۔ پاکستان کوایسے نوجوانوں پر بجا طور پر فخر ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38