زندگی انسان کو دو ادوار میں بانٹ دیتی ہے یہ دور دکھ اور سکھ کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں، راقمہ کے نزدیک دکھ کی کوکھ سے کامیابی جنم لیتی ہے مگر ایساہرگز نہیں کہ سکھ کی کوکھ سے ناکامی کا ہی نزول ہو، زندگی کو چاہنے والے خود سے پیار کرنیوالے انسانیت سے بھی پیار کرتے ہیں، ہمارے گرد ایسے بہت سے لوگ ہیں جو رواں لہروں کی طرح بہتے ہوئے اپنے اطراف کے لوگوں کے غم بہالے جاتے ہیں اور انکو آسودہ رکھنے کیلئے اپنی زندگی کی اوقات کار میں سے وہ لمحے بھی عنایت کرتے ہیں جس میں وہ اپنی خوشیوں اور کامیابیوں کیلئے بہت کچھ کرسکتے تھے رشتے خون کے ہوں یا انسانیت کے ان میں اخلاص، سچائی اور اعتماد کا عرق نہ رستا ہو تو ان سے وہ پتھر بھلے جو جنگلوںمیں رہنے والوں کو رگڑنے پہ شعلہ مہیا کرتے ہیں۔ کوئی مانے یہ نہ مانے کسی لمحے میں یا کسی سمٹے ہوئے دن میں جب ہم اکیلی سیاہ راتوںمیں سوچتے ہیں کہ ہمارے گرد ایسے کون لوگ ہیں جو اپنائیت کا احساس دیتے ہیں تو سچ پوچھیں تو مجھے اپنے گرد ایسے بے شمار لوگ نظرآتے ہیں چونکہ ہم ادیب لوگ ہیں قلم کی نوک کو نیز کی کاٹ پہ رکھتے ہیں اور قرطاس پہ حملوں کی عباکو کبھی تارتار کبھی پیراہن عطاکرتے ہیں۔اک تارا اک چاند اورمیں کی تقریب پذیرائی تھی میں نے سوچا کہ ابھی کل کی تو بات تھی کہ ڈاکٹردانش عزیز سے ملاقات ہوئی مائیک میں بولنے کارسیا یہ شخص کتنی حلاوت رکھتا تھااپنے جملوں اور ادائیگی میں بات سے بات نکالتے شعر سے واقعات جوڑتے یاداشتوں کو گنگاتے کیا کچھ کیاجاتا تھا، بہت سے لوگ اچھا لگتے ہیںمگر کم ہیں جو اچھا بولتے ہیں وہ بھی مجمع کے سامنے ڈاکٹر دانش عزیز میں ایک خوب اوربھی ہے وہ کسی کو بھی مسکرائے بنا نہیں ملتا، رشتوں کا تقدس اسکی آنکھوں کے نمو سے یہ پاکیزہ پیرائے میں نظر آتاہے یقینا وہ ہم فراق کا مارا بھی ہوگا یقیناً غم دوراں نے اسے ستایا بھی ہوگا یقیناً وہ انسان رویوں سے اکتابھی ہوگا سب کے سامے ہنستا مسکراتا تنہائی میں سسکیاں بھی لیتا ہوگا، اپنے وجود پہ پیوندبھی ٹانکتا ہوگا مگر اس کی مسکان اس کی روشن آنکھوں اور چمکتی آواز نے شاید کسی کو کبھی یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا، ڈاکٹر دانش توروتے ہوئے لوگوں کو ہنسانے کا عزم لے کے آگے بڑھ رہے ہیں ایک ماہرنفسیات بھی ہیں صرف قاری اور سامع کی نفسیات سے یہ ہی نہیں بلکہ مریضوں کے ذہنی بگاڑ یہ بھی ان کی گہری نظرہیں جس طرح پیسہ بھی انسان کا دوست بن جاتاہے اسی طرح لفظ کاغذ اور قلم بھی انسان کے بہترین دوست ہیں ان کا مہیا ہونا وقت پیسے یا جگہ کا محتاج نہیں جس طرح سر آجاگی ہے اور بے موسم کو سہانا کردیتاہے اداسی کو بھی ترنم دیتاہے اسی طرح سے شاعری کی منصف بھی رنگے منورہوتے ہیں روتے ہوئے مان جاتے ہیں ماضی کا عرصہ صاف دکھائی دیتاہے چرجلترنگ بجتی ہے توسروں پہ شاعری رقص کرنے لگتی ہے ذات پنہاں کا خوبصورت اظہار شاعری ہے دانش عزیز کہتاہے کہ…؎
مجھے یادہ خوادی کی عادت نہیں ہے
ذرا غم منانے کو پی میں رہا ہوں
مرا زندگی سے تو جھگڑا یہی ہے
کہ وہ جی رہی ہے جی میں رہا ہوں
دانش عزیز کی شاعری میں دکھوں اورجتوں کے سمندر میں غوطہ زن قاری جب سر اٹھاتا ہے تو سر تایا بھیگ چکا ہوتاہے اسکا وجود ندی سے نیا کے نکلنے والی عورت کی طرح سے سحر پھیلا رہا ہوتاہے اور سالوں سے ٹپکنے والی بو نہ بو سے روح کی زمین سیراب ہورہی ہوتی ہے، اعتکاف ادب میں عبائے شوق اوڑھے یوں بھی کونسے ہیں دبک بیٹھتا دانش عزیز کا شوق ہے اس کیفیت میں وہ کہتے ہیں کہ …؎
آئو احساس کی مالا میںپیروئیں الفت
آئوپھر آنکھ کے دریا میں بھگوئیں الفت
شاعر کی کیفیات قاری میں منتقل ہوجانا ہی اسکی کامیابی سے دوسروں کو خوشی میں جینے والے دانش عزیز بڑی فراخدلی سے محبتوںکو فرشتوں کے پروں رکھ کے آسمان کی طرف ہدیے بھیجتے ہیں۔زندگی دھوپ وسائے کے تمام فاصلے تہہ کرتی ہوئی بڑھتی جارہی ہے کہیں کوئے یاد میں پناہ ملتی ہے تو کہیں ہم پتھروںسے گلے بلبلانے لگتے ہیں کبھی تھل میں پڑائو کرنا پڑے تو ریت کے بگولے آنکھوں اور سانسوں میں ریت انڈیلے لگتے ہیں دانش کی شاعری میں بھی اپنی قباحتوں کاذکر ملتا ہے۔ …؎
نہ سنے گا سماج رہنے دو
نہ کرو احتجاج رہنے دو
پھونک ڈالو ہمارے گھر لیکن
بس ذرا سا اناج رہنے دو
معاشرے کی روح پہ جو زخموں کے انبار لگے ہیں دانش عزیز کی شاعری اسکی عکاس ہے، خوبصورت استادے کنایئے کا استعمال، کڑکتی ہوئی بجلی سے سہم کے لپٹ کرگزرنے والی واردات دانش عزیز کے لہجے مے لپٹ کر روتی بین کرتی قہقہے لگاتی محبت سے دوستوں کو اپنا بناتی نظرآتی ہے، دانش عزیز کے بارے میں موجود سپیکرز نے بہت کچھ کہا میرا کہنا یہ ہے کہ دانش عزیز کسی کا دشمن نہیں ہوسکتا، ہجر وصال اور غم وخوشی ان کے تن پہ پیوند کی طرح سلے ہوئے ہیں اس پہ طرزہ یہ کہ وہ وہ درد ام کی عمیق وادیوں میں خود کو یوں پھینک آتے ہیںکہ خود کو اکثر میسر نہیں ہوتے۔
ایسا لگتاہے کہ لڑتا رہا تقدیر کے ساتھ
کس نے لکھاہے یہ جملہ مری تصویر کے ساتھ
ہوکے آزاد میں بدنام ہوا پھرتا ہوں
میری توقیر تھی قائم مری زنجیر کے ساتھ
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024