پنجاب یونیورسٹی خطے میں معیاری تعلیم کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران
سیف اللہ سپرا
یونیورسٹی آف دی پنجاب پاکستان کے صوبائی دارالحکومت اور علم و دانش کے مرکزلاہور میں واقع ہے۔ یہ یونیورسٹی 1882ء میں برطانوی حکومت نے بنائی اور اس وقت سے لے کر آج تک یہ ادارہ علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ یہ یونیورسٹی پاکستان کی قدیم ترین اور سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی کے 83 مختلف شعبہ جات ہیں جن میں 37ہزار طلبہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔اس یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹر مجاہد کامران ہیں جو گذشتہ 6 سال سے اس عہدے پر فائز ہیں اور یونیورسٹی کی ترقی کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران ایک معروف صحافی سید شبیرحسین مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ آپ 1972ء سے ٹیچنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ یونیورسٹی آف جارجیا امریکہ میں 1988-89ء کے فل برائٹ فیلو رہے اور 2001 سے 2004ء تک کنگ سعود یونیورسٹی ریاض میں فزکس کے پروفیسر رہے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور تحقیقات کے باعث ڈاکٹر مجاہد کامران کو مختلف اعزازات سے نوازا گیا جن میں عبدالسلام پرائز 1985ء پریزیڈنٹ پرائیڈ آف پرفارمنس 1999ء انٹرنیشنل آئن سٹائن ایوارڈ فار سائینٹکفک اچیوومنٹ 2010ء شامل ہیں ان کی کتاب ’’جدید طبیعات کے بانی،، کو 2000 میں نیشنل بک کونسل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر مجاہد کامران بین الاقوامی امور اور سیاست پر بھی خاصی مہارت رکھتے ہیں اور ایسے پیچیدہ امور پر بطور وائس چانسلر اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود 5 کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں بین الاقوامی مالدار خاندانوں اور یہودیوں کی سازشوں سے متعلق اہم انکشافات تحقیق اور تاریخی شواہد کے ساتھ کئے گئے ہیں ۔ڈاکٹر مجاہد کامران گذشتہ ساڑھے 6 سال سے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں وہ پنجاب یونیورسٹی کو ایک مثالی ادارہ بنانے کے لئے کیا کیا اقدامات کر رہے ہیں یہ معلوم کرنے کے لئے ہم نے گذشتہ دنوں ایک تفصیلی نشست کی جس میں ہونے والی گفتگو قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔
س: آپ نے پنجاب یونیورسٹی کی ترقی کے لئے کیا کیا اقدامات کئے!
ج: میں نے جنوری 2008ء میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے کا چارج سنبھالا میں نے کوشش کی ہے کہ یونیورسٹی کے ہر شعبے میں ممکن حد تک بہتری لائوں۔ مثال کے طور پر سال 2007ء میں ریسرچ فنڈ کی رقم 40 لاکھ روپے تھی میں نے یہ رقم بڑھا کر 10 کروڑ روپے کر دی ہے۔ اسی طرح پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد میں بھی ماضی کی نسبت خاصا اضافہ ہوا۔ سال 1990ء سے لے کر 2007ء تک اوسطاً سالانہ 41 افراد پی ایچ ڈی کرتے رہے ہیں۔ سال 2012ء میں 206 افراد نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور سال 2013ء میں 180 افراد نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی سال 2007ء میں معیاری سائنسی تحقیقی جرائد میں مقالات کی تعداد 160 تھی 2012ء میں یہ تعداد 550 تک پہنچ گئی سال 2013ء میں یہ تعداد 525 تھی
2007ء میں بین الاقوامی کانفرنسوں میں اساتذہ کی شرکت کیلئے فنڈز بالکل نہیں رکھے گئے۔ جبکہ سال 2013-14ء میں اساتذہ کی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کے لئے ڈیڑھ کروڑ روپے رکھے گئے ہیں سال 2007ء میں یونیورسٹی کے اساتذہ کی کل تعداد ساڑھے سات سو تھی جن میں 210 اساتذہ پی ایچ ڈی تھے۔ اس وقت پنجاب یویونیورسٹی میں اساتذہ کی کل تعداد 1106 ہے جن میں سے 487 اساتذہ پی ایچ ڈی ہیں۔
2007ء میں بیرون ملک اساتذہ کی پی ایچ ڈی کے لئے ساڑھے چار کروڑ رقم رکھی گئی تھی جبکہ اس وقت یہ رقم ساڑھے سات کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے۔ ہمارا مقصد ہے کہ تعلیم عام کی جائے اور پھراس کا معیار بھی بہتر بنایا جائے۔ GAT کے حوالے سے عدالتی فیصلہ آنے کے بعد سب سے پہلے ہماری یونیورسٹی نے اس پر عملدرآمد کیا۔
س: آپ کی یونیورسٹی میں ہم نصابی سرگرمیوں کو کس حد تک اہمیت دی جاتی ہے؟
ج: طالب علموں کے لئے ہم نصابی سرگرمیاں بہت ہی ضروری ہوتی ہیں پنجاب یونیورسٹی میں ہم نصابی سرگرمیوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ خصوصاً نعت خوانی ‘ فوٹو گرافی‘ ڈرامہ‘ سپورٹس پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔ سپورٹس میں کرکٹ‘ ہاکی‘ فٹ بال‘ تیراکی‘ اتھلیٹکس‘ بیڈمنٹن‘ ٹیبل ٹینس‘ شوٹنگ‘ کبڈی‘ والی بال‘ نیٹ بال‘ ٹینس‘ ہینڈ بال شامل ہیں۔ 2013-14 میں پنجاب یونیورسٹی کی کھیلوں میں کارکردگی بہت نمایاں رہی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ سپورٹس میں پنجاب یونیورسٹی کے گولڈ میڈلز کی تعداد جو کسی زمانے میں پانچ چھ تک ہوئی تھی‘ اب 20 سے تجاوز کر گئی ہے کھیلوں کی ترقی کے لئے جس طرح اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ دن دور نہیں جب پنجاب یونیورسٹی تمام کھیلوں میں پہلی پوزیشن پر آ جائے گی۔ پنجاب یونیورسٹی کے کھلاڑی قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کر رہے ہیں اور ہمیں اپنے کھلاڑیوں پر فخر ہے
س:پنجاب یونیورسٹی کے اخراجات کس طرح پورے کئے جاتے ہیں؟
ج: پنجاب یونیورسٹی کے بجٹ کا دو تہائی ہم خود جنریٹ کرتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمشن صرف ایک تہائی دیتا ہے۔ پچھلے سال 5 ارب روپے کا بجٹ تھا اور ہائر ایجوکیشن کمشن نے صرف 1.6 ارب روپے دئیے موجودہ مالی سال کا بجٹ 6 ارب روپے ہے اور ہائر ایجوکیشن کمشن نے صرف 1.8 ارب روپے دئیے ہیں۔ اپنی آمدنی سے اساتذہ اور دیگر ملازمین کی رہائش کے لئے مکانات بنا رے ہیں پچھلے سال 24 نئے مکان تعمیر کئے اس سال بھی 24 نئے مکان تعمیر کئے جارہے ہیں۔ ہر سال 24نئے مکان تعمیر کیے جاتے ہیں۔
س:۔ یونیورسٹی کے طلبہ بسوں کی کمی کی شکایات کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج:اس میںکسی حد تک صداقت ہے ۔کافی عرصے سے بسوں کی کمی ایک مسئلہ بنا ہوا تھا ۔ہم نے تین نئی بسیں خریدی ہیں جس سے یہ مسئلہ کافی حدتک حل ہوگیا ہے۔
س: یونیورسٹی کے ریسرچ انڈومنٹ فنڈ کی کیا صورتحال ہے؟
ج: جب میں نے چارج سنبھالا تو اس فنڈ میں صرف اڑھائی کروڑ روپے تھے۔ اب اس فنڈ میں 40 کروڑ روپے ہیں۔ جبکہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ اس رقم کو ایک ارب روپے تک لے جایا جائے۔ مجھے امید ہے کہ ہم بہت جلد یہ ہدف حاصل کر لیں گے۔ اس کے علاوہ ملازمین کی بہبودکا فنڈ قائم کیا ہے جس میں 2 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
س: پنجاب یونیورسٹی میں اس وقت طلبہ کی تعداد کتنی ہے؟
ج: پنجاب یونیورسٹی میں اس وقت 83 شعبہ جات ہیں جن میں 37 ہزار طلبہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں پنجاب یونیورسٹی میں زیادہ تر کم وسائل رکھنے والے خاندانوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اس لئے ہم نے کم فیس رکھی ہوئی ہے پنجاب یونیورسٹی تعلیم کو عام کرنے اور تحقیق کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اور یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ عدلیہ انتظامیہ مقننہ‘ تعلیم‘ طب‘ سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں احسن طریقے سے خدمات انجام دے کرپنجاب یونیورسٹی کا نام روشن کر رہے ہیں۔