ہم اس پر کھیلیں گے،،اس نے اپنے کھلاڑیوں کو سمجھایا اور کھیل شروع کردیا۔ ملک میں عام انتخابات ہوچکے تھے پہلی بار اقتدار ایک منتخب جمہوری حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا تھا۔ انتخابات میں پہلی بار الیکشن کمیشن نے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا تجربہ کیا جو اتنا کامیاب ثابت نہیں ہوا تھا۔ جانچ پڑتال میں کئی تکنیکی وجوہ کی بنیاد پر بہت سے ووٹرز کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق نہیں ہورہی تھی۔ شاید یہی بہترین چیز تھی کھیلنے کے لیے تو اس نے انتخابی دھاندلی پر کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ اسے منظم دھاندلی بنا کر پیش کیا۔ ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس اور میڈیا کے کچھ چینلز کو بھی اس ’پلان‘کا حصہ قرار دیا، پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ پر بھی 35 پنکچر لگانے کا الزام لگایا اور عوام کی بہترین انداز میں ’سپون فیڈنگ‘ کی۔ تمام تحقیقات میں یہ الزامات کہیں ثابت تو نہ ہوسکے لیکن اس وقت تک وہ خوب کھیل چکا تھا ، تین ماہ سے زائد دارالحکومت میں دھرنا ، اربوں کا معاشی نقصان ،سی پیک جیسے منصوبوں میں تاخیر سب اس ’کھیل‘کی نذر ہوگیا۔
اس کھیل میں تو مطلوبہ کامیابی نہ ملی لیکن وہ کھیل کے مواقع کی تلاش میں لگا رہا اور 2016ءمیں پاناما لیکس نے اسے کھل کر کھیلنے کا موقع دیدیا۔ اسی سکینڈل کے نتیجے میں تین بار کے منتخب وزیر اعظم کو تاحیات سیاست سے باہر کردیا گیا۔اس پر وہ کیسے نہ کھیلتا، پھر اس نے انتخابات جیتے حکومت بنالی لیکن کھیلنا جاری رکھا۔ اس نے حکومت میں رہتے ہوئے بھی سابق حکمرانوں اور مخالف سیاستدانوں کی مبینہ کرپشن پر خوب کھیلا۔ ہر مخالف کو چور ڈاکو بنادیا ،سب کو چن چن کر جیلوں میں ڈالا اور یہاں تک کہ تمام مخالفین ایک ہوگئے اور اسے ہی اقتدار سے نکال باہر کیا۔ جاتے جاتے اس کے ہاتھ ایک سفارتی خط لگ گیا۔ سفارت کاروں کی جانب سے دفتر خارجہ کو ایسے خطوں کا لکھا جانا معمول کا عمل سمجھا جاتا ہے لیکن عام لوگ تو یہ نہیں جانتے اس لیے اس نے اس خط پر کھیلنے کا فیصلہ کیا اور اس خطا کی بنیاد پر خود کو ہٹائے جانے کو عالمی سازش بنادیا اور اس کے حامی مان بھی گئے ، وہ کھیلا ہی اتنا اچھا تھا۔
پھر شاید احساس ہو ا یہ تو غلط ہوگیا امریکا بہادر کی ناراضگی افورڈ نہیں کی جاسکتی تو اس نے پینترا بدلا اور اپنی اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگایا اور اس پر کھیلتا رہا ۔ پھر تو جو بھی سامنے آیا وہی اس سازش کے الزام کے رگڑے میں آتا چلا گیا۔ پھر اس نے اپنے قتل کا پلان بتایا اور اس پر کھیلنا شروع کردیا۔ وزیر آباد میں اس پر حملہ ہو ا تو اس نے اس پر بھی خوب کھیلا اور چن چن کر بڑے مخالفین پر الزام لگا دیا۔ اس نے کبھی خود کو زہر دیے جانے اور کبھی مرتضی بھٹو کے انداز میں قتل کیے جانے کی پلاننگ کے انکشافات کیے۔ جو بھی راستے میں آیا اس نے اپنے قتل کے منصوبے کا حصہ بنادیا۔ اقتدار میں وہ اس پر کھیلا کہ ’میں انھیں نہیں چھوڑوں گا‘ اور اقتدار جانے کے بعد اس پر کہ ’یہ مجھے نہیں چھوڑیں گے‘۔
عمران خان ایک پروفیشنل کھلاڑی رہے ہیں شاید اسی لیے وہ سیاست کو بھی کھیل سمجھ کر کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی بڑی کامیابی یہی رہی کہ انھوں نے جو بھی بیانیہ بنایا کامیابی سے اس پر کھیلا۔ دھاندلی، چار حلقے، پینتیس پنکچر، سائفر، آزادی اور حقیقی آزادی، غلامی نامنظور، جو بھی بیانیہ بنایا اس کا اتنا پرچار کیا کہ جس کے خلاف بنایا اسے بھی شک ہونے لگا کہ شاید ایسا ہوا ہو۔ ہر دور میں انھوں نے کھیلنے کے لیے کچھ ڈھونڈ نکالا اور پھر اس پر خوب کھیلا۔ سیاستدان سیاست میں مخالف کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مہنگائی جیسے عوامی ایشوز سیاستدانوں کو کھیلنے کے لیے فل ٹاس بال کی طرح لگتے ہیں لیکن عمران خان نے تو ایسی ایسی بالوں کو فل ٹاس بناکر کھیلا کہ حامی اور مخالف سبھی حیران و پریشان رہ گئے۔ اس کھیل کا کسی نہ کسی نے تو سیاسی فائدہ اٹھایا لیکن یہ کھیل حقیقت میں ملک کے ساتھ کھلواڑ ثابت ہوئے اور کھیل کھیلنے میں ملک اس نہج پر پہنچ گیا۔ معاشی حالات بدترین، سیاست تلخ ترین ، ادارے تقسیم ہوگئے، معاشی بحران کے ساتھ سیاسی اور آئینی بحران سر اٹھائے کھڑے ہیں، ملک کا جو حال ہوا وہ تو سب کے سامنے ہے لیکن افسوسناک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اس کا ادراک دکھائی نہیں دیتا اور اپنی سیاست کے لیے کھیلے جانے والے یہ کھیل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024