اللہ بخشے منیر نیازی کو ، شاعر تووہ کمال کے تھے ہی لیکن دانشور بہت پائے کے تھے،ان کی دانش میں ہم ایک قوم نہیں ،ایک موقع پرمنیر نیازی نے کہا کہ ـ ’’ وی آر ناٹ اے نیشن ہم ایک قوم نہیں ہیں ‘‘ منیر نیازی آج سے چودہ سال پہلے یہ لمحہء فکریہ ہمیں سونپ کر اس دار فانی سے رخصت ہوئے لیکن ہم نے اس فکر کو ان کے ساتھ ہی دفن کر دیا ، داغ دہلوی نے کیا خوب کہا تھا …؎
ناسمجھا عمرگزری اس بتِ کافر کو سمجھاتے
پگھل کر موم ہوجاتا اگر پتھر کو سمجھاتے
دنیا کرونا وائرس کی جان لیوا لپیٹ میں ہے، روزانہ لوگ مر رہے ہیں، ہمارے قریبی دوست ملک میں اس وباء نے بڑی تیزی سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیا اور پھر دنیا کی کئی ممالک اس کی کڑی میں جڑتے چلے گئے تجزیہء نگاروں کے مطابق یہ وائرس لوگوں کی لاپرواہی اور حکومتوں کی بے انتظامی کی وجہ سے پھیلتا چلا گیا ، جون ہوپکنزیونیورسٹی اینڈمیڈیسن کے مطابق دنیا کے 177 مما لک اس وباء سے متاثر ہوئے ہیں ، کرونا سے اموات کا سلسلہ رک نہیں رہا ہر لمحہ شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے ، یہ وائرس دنیا میں ہوا کی طرح پھیلتاچلا جا رہا ہے، ابھی تک اس کے پھیلاو کا سدِ باب ممکن نہیں ہو سکا جدید سائنس کے ہوتے ہوئے انسان بے بس ہے ،کرونا سے اموات اور رجسٹرڈ افراد کی تعداد تحریر کرنا بے سود ہے کہ ہر لمحہ اس تعداد میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ تحریر میں تعداد کا شمار متنازع ہو جاتا ہے ۔
دنیا بھر میں سخت احتیاطی تدابیر کو اپنایا جارہا ہے،لیکن ہمارے ملک میں سنجیدگی کا فقدان ہونے کی وجہ سے یہ وائرس بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے ، لوگوں کواس وائرس سے آگاہی دینا حکومت وقت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے تھی جس کا بر وقت ادراک نہیں ہوا،لوگ ابھی تک اس وائرس سے بچنے کے لئے سنجیدہ نظر نہیں آتے ، معاشرہ اتھاہ گہرائیوں کی طرف گامزن ہے ، بقول منیر نیازی ، …؎
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
دنیا میں جیساکہ HIV اور EBOLA وائرس کے بارے میںتاثر پایا جاتا ہے کہ انہیں میڈیسن کی تجارت کے لئے باقائدہ تیار کیا گیا تھا جس سے دنیا کے دو بڑے ملک مستفیذ ہورہے ہیں ، اسی طرح کرونا وائرس کے بارے میں بھی خیال ہے کہ یہ تیار کردہ ہے ۔ قطع نظر موجودہ کروناوائرس انسانی تیار کردہ ہے یا قدرتی ہے ، ہمیں حفظ ما تقدم کے طور پر ہر وہ احتیاطی تدابیر کو اپنانا ہوگا جس سے لوگ محفوظ رہ سکیں،ہمارا دین بھی وباء کی صورت میں اپنی حفاظت کی ترغیب دیتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن ِ کریم میں فرماتے ہیں کہ ’’ جب حضرت سلیمان کا لشکر چیونٹیوں کے میدان میں پہنچا تو ایک چیونٹی کہنے لگی اے چیونٹیو اپنی رہائش گاہوں میں داخل ہو جاو، ، چیونٹی کے دماغ اور انسانی دماغ کے حجم کا موازنہ سورج اور چراغ کی مثل ہے ، آج کا انسان اپنی اور اپنے سے منسلک لوگوں کی دیکھ بھال اور قبل از وقت احتیاطی تدابیر سے غافل ہے، معاشرے کا ہر فرد شعوری اور لا شعوری طور پر پورے معاشرے میں وباء پھیلانے کا ارتکاب کر رہاہے ، ہمارے رویے تسلیم کے دائرے سے نکل کر سر کش و نافرمانی کی تصویر بن کر حجت و استدلال میں محبوس ہو گئے ہیں احمد فراز نے اسی حجت پہ کچھ یوں کہا ۔ ہم سے کیوں مانگے حساب ِ جاں کوئی جب عمر بھرکون ہیں ، کیا ہیں،کہاں ہیں،ان سوالوں میں رہے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024