میں 1968-69میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکرٹری تھا اسلامی جمعیت طلبہ کے زیراہتمام ’’درس قرآن‘‘ کے ذریعے طلبہ کو اسلام کی طرف راغب کیا جاتا تھا اس دور میں بائیں بازو کے طلبہ کا بڑا زور تھا اسلامی جمعیت طلبہ کو ’’درس قرآن‘‘ کے لئے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا چونکہ میں زمانہ طالبعلمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی سرگرمیوں سے بڑا متاثر تھا لہذا میں نے اسلامی جمعیت طلبہ کو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال میں درس قرآن دینے کی اجازت دلوائی لہذا اگر میں یہ کہوں کہ اسلامی جمعیت طلبہ میری پہلی محبت تھی تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی اس لحاظ سے مجھے جماعت اسلامی کو بڑے قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے ساتھ اتنی قربت بڑھی کہ میں اس کی اندرونی سیاست کے بارے میں بہت کچھ جاننے لگا لیکن اکثر و بیشتر جماعت اسلامی کی اندرونی سیاست پر قلم اٹھانے سے گریز کیا جماعت اسلامی پاکستان کی واحد دینی سیاسی جماعت ہے جس کی اندر کی بات باہر نہیں آتی۔ لیکن جب میں نے جماعت اسلامی گوجرخان کے درویش صفت رہنما کی طرف سے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد پر مرکزی مجلس شوریٰ میں ہونے والی بحث کے بارے میں خبر شائع کی تو قاضی حسین احمد نے مجھے طلب کر لیا وہ مجھ سے ’’سورس آف نیوز‘‘ کے بارے میں استفسار کرتے رہے لیکن میں نے ان کو سورس آف نیوز بتانے سے گریز کیا۔
1941 میں سید ابوالاعلیٰ مودودی نے برصغیر پاک وہند میں ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جس نے اسلام اور نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والا سیاسی لشکر تیار کیا جو بائیں بازو کی جماعتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔ زمام کار مومنین و صالحین کے ہاتھ میں دینے یعنی زندگی کے تمام دائروں میں اقامت دین کے نفاذ کے لیے جدوجہد اس تحریک کا بنیادی وصف ٹھہرا، بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر خالص اللہ کی بندگی میں دینے کے یہ دعوے دار اگرچہ تعداد میں کچھ زیادہ نہ تھے لیکن اطاعت ،نظم اور تنظیم میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے، جماعت اسلامی کو قیام کے بعد کئی نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا’’ ماچی گوٹ‘‘ کا واقعہ جس میں جماعت اسلامی کے متعدد قریبی ساتھی اور جماعت کی قیادت پر فائز کئی بڑے نام جماعت کو چھوڑ گئے لیکن اس نوع کی کوئی نئی تنظیم قائم کی جا سکی اور نہ ہی جماعت کی قوت اور اس کی ساکھ میں کوئی دراڑ ڈالی جا سکی، ایک نظام جو پہلے دن سے رائج تھا وہ اسی طرح برقرار رہا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی زندگی ہی میں علالت کے باعث جماعت کی امارت سے معذرت کرلی اور ان کے بعد بانی جماعت کے دیرینہ ساتھی میاں طفیل محمد منصب امارت پر فائز ہوئے۔ میاں طفیل محمد کے دور امارت تک بھی جماعت کے وابستگان کے اندر اطاعت اور تصوف اور باضابطگی کے اوصاف بدرجہ اتم موجود رہے ان کے سپرد جو بھی کام کیا گیا وہ اسی کو فرض سمجھ کر گزرتے رہے ہر فرد سیاسی طاقت اور پارلیمانی قوت میں اضافہ ایک خاص وقت کے لئے اپنے اوپر طاری کرتے لیکن دعوت و تربیت کے کام کو ہم وقتی کرتے رہنا ہی انہوں نے اپنا فرض جانا۔ میاں طفیل محمدکے بعد قاضی حسین احمد جماعت کے امیر بنے آپ کے دور امارت میں جماعت کے اندر ایک زبردست ہلچل پیدا ہوئی قاضی صاحب کی عوامی شخصیت اپنی جگہ لیکن تقویٰ اور علم کے علاوہ دنیاوی علوم اور زبانوں پر بھی انہیں دسترس حاصل تھی ان کے دور میں جہاں جماعت کو ایک زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہوئی وہیں جماعت کے اندر امیر جماعت کی سیاسی حکمت عملی سے اختلاف پیدا ہوا اور پہلی مرتبہ جماعت کی کوکھ سے ایک نئی جماعت تحریک اسلامی نے جنم لیا۔ جماعت کے وابستگان اور ارکان و کارکنان نے پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر سیاسی اور دینی حوالے سے دو آراء پیدا ہوئیں جس کے نتیجے میں قاضی صاحب کو جماعت کی امارت سے مستعفی ہونا پڑا۔
وہ مسلسل 22 سال تک امارت کے منصب پر مکمل اختیارات کے ساتھ فائز رہے وقت کے ساتھ ساتھ اختلاف کی چنگاری کو ہوا ملتی رہی اور وہ وقت بھی آیا جب قاضی صاحب کو جماعت کی امارت سے معذرت کرنا پڑی وہ ایک طویل عرصہ امارت کے منصب پر فائز رہنے کے بعد بالآخر جماعت کی امارت سے الگ ہوگئے۔سیدمنورحسن نے قاضی حسین احمد کی جگہ لی لیکن وقت کے’’ جبر ‘‘نے جماعت کی تنظیم کو یکسو نہ ہونے دیا یہی وجہ ہے کہ جماعت کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ’’سٹنگ امیر‘‘ دوسری مرتبہ امارت کے منصب پر فائز نہ ہوسکا اور 2014ء میں سراج الحق جماعت کے امیر منتخب ہو گئے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ سراج الحق امیر جماعت تو منتخب ہوگئے لیکن ان کی امارت کا پہلا انتخاب اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ 2014 ء میں امیر جماعت نے اپنے لئے جو ٹیم منتخب کی اس نے امیر جماعت کے اردگرد ایسا ہالہ بنا لیا جس کے باعث جلد ہی امیر جماعت کی پوزیشن کو کمپرومائز ہوتی رہی اس وقت جماعت کی اندرونی سیاست کا یہ حال ہے کہ تیسرے درجے کی قیادت جو خود طرح طرح کے الزامات کی زد میں ہے امیر جماعت کی مشاورت میں اہم مقام رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ 2018 ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کا بیس کیمپ دیر تک سکڑ گیا اور سراج الحق کی قیادت میں جماعت اسلامی پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں باوجود دینی جماعتوں کے اتحاد میں شامل ہونے کے محض ایک نشست حاصل کر سکی یہ وقت جماعت اسلامی پر کبھی نہیں آیا۔ جماعت کی پالیسی اور ناقص حکمت عملی کے ذمہ دار امیر جماعت کی ٹیم کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی کونسلر کا الیکشن بھی نہیں لڑایا کبھی بلدیات کی نمائندگی بھی نہیں پا سکے۔ جماعت اسلامی میں قیادت کا فقدان ہے آج بھی مرکزی قیادت میں سوائے ایک آدھ کے قومی سطح کا کوئی لیڈر نہیں ہے امیر جماعت کے علاوہ قومی سطح پر پروفیسر غفور احمد کے بعد لیاقت بلوچ کو یہ مقام ملا جس کا احترام قومی سیاسی قیادت علماء کرام بیوروکریسی اسٹیبلشمنٹ یکساں طور پر کرتی ہے لیکن یہ محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں جماعت کے اندر ان کے کردار کو بھی محدود کرنے کے لئے تانے بانے بنے جا رہے ہیں جہاں یہ جماعت اسلامی کی بدقسمتی ہوگی وہیں قوم بھی ایک محب وطن اور دین سے محبت رکھنے والی جماعت کے مستقبل کے کردار کو بھی مجلس احرار کے روپ میں دیکھ رہی ہے۔ سراج الحق کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ اپنی ٹیم میں پنجاب کو فوکس کریں۔ کے پی کے سے وہ خود ہیں جب کہ پنجاب منی پاکستان ہے مرکز میں اپنی ٹیم میں قد آور شخصیات کے کردار کو مزید گہرا کریں اور صوبہ پنجاب جس کے ٹکڑے تنظیمی طور پر کر دیئے گئے ہیں وہاں بھی مضبوط کردار، الزامات سے پاک اور قومی و سیاسی تشخص کے حامل ا فرد کو مقرر کریں۔ جماعت اسلامی میں امیرالعظیم پنجاب میں ایک اچھا اضافہ ہے ان کو پنجاب میں مزید اعتماد دے کر آگے بڑھایا جا سکتا ہے آئندہ سالوں میں وہ مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن ان کو وقت درکار ہے اسی طرح کراچی میں بھی نوجوان قیادت ابھر رہی ہے اس کو بھی آگے آنے کا موقع دیا جا سکتا ہے ان پر بھرپور اعتماد کر کے جماعت اسلامی اپنے وجود بڑھا سکتی ہے۔ جماعت اسلامی قوم کے لئے آج بھی امید کی ایک کرن ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی پالیسیوں میں تسلسل پیدا کیا جائے اور مرکزی قیادت کے مناصب پر ’’خوشامدی اور غیر سیاسی‘‘ لوگوں سے نجات حاصل کی جائے۔ میرے پچھلے کالم پر منیر احمد خلیلی نے مجھے ایک خط لکھا ہے انہوں نے اس کی ایک کاپی جماعت اسلامی پاکستان کے امیر اور قیم کو بھی ارسال کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’آپ کے کالم غور سے پڑھتا ہوں۔ کل کا کالم جماعت اسلامی اور اس کے امیر محترم کے بارے میں اچھے تاثرات لئے ہوئے تھا جماعت اسلامی میرا پہلا عشق ہے جس کے بعد کوئی اچھا لگا بھی تو جماعت سے بڑھ کر اچھا نہ مان سکا۔ سید مودودیؒکے سیاست و سماجیات میں قائم کردہ اخلاقی معیارات پر کوئی اور پورا نہ اتر سکا۔ سراج الحق درویش صفت لیڈر ہیں ان کا دامن کرپشن کے ہر داغ سے پاک ہے لیکن جماعت اسلامی جیسی عظیم فکری اور نظریاتی تحریک کی قیادت کے لئے جس بصیرت و فراست اور گہرے علم اور فہم دین کی ضرورت ہے وہ ابھی اس بلندی پر نہیں پہنچے۔ یہ ایک پہلو ہے فیصلوں میں نقص کا۔ میں نے ساری جماعتوں کے مزاج کا جماعت اسلامی سے موازنہ کیا ہے۔ قیادت کو چھوڑیں، کارکنوں کی فکری سطح کے اعتبار سے مسلم لیگ کا کارکن جماعت کی فکر کا بہت آسانی سے ہدف بنایا جا سکتا ہے۔ جماعت اپنی افرادی قوت پچھلے تیس سال میں گنواتی رہی تو وہ مسلم لیگ کو جاتی رہی اور اس کی بازیافت ہو سکتی ہے تو مسلم لیگ کے اندر سے ہو سکتی ہے۔ یہ پہلی بار ہوا کہ تحریک انصاف نے جماعت کی نوجوان افرادی قوت کو’’ اغوا‘‘ اس میں سراج الحق کی عمران خان سے گہرے لگاؤ نے کارفرمائی کی۔ سرحد میں چار پانچ وزارتوں کی وجہ سے سراج الحق نے جماعت اسلامی کو گویا عمران خان کے ہاں رہن رکھ دیا۔ پالیسیوں میں ایسی مجہولیت پیدا ہوئی کہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ جماعت پی ٹی آئی کے اس قدر تابع کیوں کر دی گئی ہے۔ جماعت اپنے تنظیمی امور کے معاملے میں اپنی مجلس شوری پر انحصار کرے مگر اہم قومی اور بین الاقوامی معاملات کے لئے جماعت کا ایک متحرک تھنک ٹینک ہونا ضروری ہے۔ کسی رخ پر اقدام سے قبل تھنک ٹینک کے ماہرین ہر پہلو پر قانونی، آئینی، اخلاقی اور سیاسی زاویوں سے غور کرے۔ سراج الحق اپنی جماعت کے موڈ کو سمجھے بغیر انتخابات کے عین قریب جا کر مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں ایم ایم اے میں دھوم دھام سے شامل ہو گئے۔ یہاں بھی اگر کوئی تھنک ٹینک ہوتا تو وہ اس فیصلے سے پہلے اس کے مضمرات پر ہر زاویے سے غور کرتا لیکن ایسا نہ ہوا۔ عمران خان کی لے میں لے ملانے کے نتیجے میں پنجاب کے اندر جماعت کا ووٹ بنک بری طرح ٹوٹ گیا کے پی کے میں دیر اور سوات جیسے روایتی حلقے میں بھی امیج کی عمارت دھڑام سے گر گئی دوسری بات یہ کہ جماعت کو شکست دلوانے کے لئے عمران خان کو جتوانے والوں نے جھاڑو پھیر دیا جماعت اسلامی ووٹ بینک پر جھاڑو پھرنے والوں کے بارے میں پراسرار انداز میں خاموش ہے۔ 9 اپریل 2019ء کو جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر کی تقریب حلف برداری ہے انہیں سوچ سمجھ کر آئندہ پانچ سال کے لئے ایسی نئی ٹیم کا انتخاب کرنا ہو گا جو جماعت اسلامی کو اس کا شاندار ماضی لوٹا سکے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024