پیر ‘ 24؍ رجب المرجب ‘ 1440ھ‘ یکم اپریل 2019ء
وزیراعظم عمران خان کی گورنر سندھ سے گانا سُننے کی خواہش
گھوٹکی میں گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر سندھ عمران اسماعیل سے گانا سُننے کی خواہش کا اظہار کیا مگر ساتھ ہی کہہ دیا کہ وہ چونکہ گورنر بھی ہیں اس لیے میں انہیں گانے کا نہیں کہہ سکتا۔ اب عمران اسماعیل نے اپنے قائد کی اس فرمائش پر نجانے کس طرح صبر اور ضبط کا مظاہرہ کیا۔ اگر کوئی اور ہوتا تو وہ اسی وقت وزیر اعظم عمران خان کی فرمائش پر بھرے پنڈال میں ’’آئے گا عمران‘‘ اور ’’تبدیلی آئی ہے، پر رقص کر کے اپنے قائد کا دل بھی بہلاتا۔ مگر شاید عمران اسماعیل بھی وزیراعظم کی اس فرمائش پر شرما گئے ہوں گے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ گھوٹکی میں اچھا ہوتا اگر گورنر سندھ وزیراعظم کی فرمائش اپنے چند مشیروں کے ساتھ مل کر ’’دما دم مست قلندر‘ زرداری جیل کے اندر‘‘ کی لے پر دھمال ڈالتے تو سارا پنڈال ان کے ساتھ دھمال ڈالتا نظر آتا کیونکہ یہ وزیر اعظم کی سب سے بڑی خواہش بھی ہے۔ ایک سنہری موقع گورنر سندھ نے کھو دیا ۔ اپنے قائد کی نظر میں سرخرو ہونے کا ، مگر کوئی بات نہیں اب اور بھی مواقع انہیں مل سکتے ہیں۔ ابھی تک پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان کسی بھی وقت مقابلہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے فی الحال …؎
ابتدا ء عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
٭٭٭٭
صدر مملکت کی ائیر پورٹ لائونج میں سوتے ہوئے تصویر وائرل ہو گئی
ایسے تو نہیں کہتے کہ نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے۔ اب صدر مملکت کی تصویر دیکھ کر تو لوگوں کو اس محاورے کی صداقت پر یقین آ گیا ہو گا مگر ان کے آرام کے وقت وہاں کا ماحول شور و غل سے پاک رکھنے کے لیے سکیورٹی والے خوب مصروف رہے ہوں گے۔ اس تصویر میں صدر مملکت کو اس طرح سوتے ہوئے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ بہت سادہ مزاج کے انسان ہیں۔ یہی شرف انسانیت ہے کہ انسان بڑا ہو کر بھی خود کو بڑا نہ سمجھے۔ کیونکہ انسان جتنا بڑا ہوتا ہے اس میں عاجزی و انکساری زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صدر مملکت کاروبار سلطنت میں اس قدر مشغول اور مصروف ہوتے ہیں کہ انہیں آرام کا وقت بھی نہ ملتا ہو۔ اس لیے جہاں وہ سایہ دیوار دیکھتے ہیں چند لمحات فراغت کے محسوس کرتے ہیں۔ آنکھیں موند لیتے ہیں ا ور یوں چند لمحے فرصت اور آرام کے مزے لوٹ لیتے ہیں۔ یہ ان کی خوش قسمتی ہے۔ ورنہ پروٹوکول کے نام پر ہروقت سکیورٹی کی فوج ظفر موج کے ہوتے ہوئے بھلا آرام کے چند لمحات بھی کہاں میسر ہو سکتے ہیں۔ اب صدرمملکت کی یہ تصویر دیکھ کر پتہ چلتا ہے وہ اتنے رکھ رکھائو کے قائل نہیں اور جہاں جگہ ملی وہیں کمر سیدھی کر لیتے ہیں۔ بس حیرت اس بات پر ہے کہ وہ ائیرپورٹ پر شورو غل میں سو کیسے گئے۔
زرداری سے کہاہے بلاول کو میری شاگردی میں دے دیں۔ فضل الرحمن
مولانا فضل الرحمن نہایت زیرک سیاستدان ہیں۔ انہوں نے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف جیسے گھاک سیاستدان کو بھی زیردام لا کر ثابت ہے کیاوہ آگ اور پانی دونوں کے ساتھ گزارہ کر سکتے ہیں۔ بس یہ عمران خان ابھی تک ان کے ہاتھ نہیں آیا ورنہ کیا مجال ہے جو کشمیر کمیٹی ان کی دہلیز پار کر کے کہیں اور جا سکتی۔ اب مولانا بھی خان صاحب کی اصلاح سے میری مراد ہے قابو آنے سے ناامید ہو چکے ہیں۔ اس لیے انہوں نے بلاول زرداری کو اپنی شاگردی میں لینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ مگر کیا آصف زرداری ایسا ہونے دیں گے۔ وہ شاید ہی بلاول کو مولانا کی شاگردی میں دیں۔ ایسی خواہش شیخ رشید کی بھی تھی۔ مگر وہ بھی ناکام رہے۔ مولانا کو بھی شیخ رشید کی طرح خطرہ ہے کہ …؎
بلاول ابھی بچہ ہے
سیاست میں بھی کچا ہے
اس لیے اسے گھاک سیاستدان بنانا ضروری ہے۔ شیخ رشید تو بلاول کے بچگانہ بیانات اورمنفی خیالات سننے کے بعد ان کی طرف سے بدظن ہو گئے ہیں ا ور انہیں فیل قرار دے چکے ہیں۔ اب معلوم نہیں مولانا کیا کرتے ہیں ویسے وہ بلاول کے آئیڈیلزم سے متاثر بھی ہیں اور ان کی اچھی باتوں سے خوش بھی ہیں اورچاہتے ہیں کہ بلاول بھی اپنے والد کی طرح سیاست کا دائو پیچ کہہ لیں یااسرار و رموز مولانا سے سیکھ لیں۔ یہ سب کچھ مولانا شاید اس لیے کر رہے ہیں کہ مستقبل میں ا گر بلاول کبھی حکومت سنبھالیں تو مولانا کو حسب مراتب کوئی اچھی سی چیئرمینی عطا کر کے ایک بار پھر مشیر با تدبیر بنا دیں۔
٭٭٭٭
نوازشریف نے اپنے مشقتی کو ایک لاکھ کے مچلکے جمع کرا کے رہائی دلوائی
قیدیوں کو رہا کرانا ایک بہت نیک عمل ہے۔ میاں نوازشریف کو خدا نے بہت نوازا ہے۔ وہ اگر چاہیں تو ہر ہفتے نہ سہی ہر ماہ ایک قیدی کو راہ خدا میں فدیہ ادا کر کے رہائی دلوا سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی جیلوں میں ہزاروں ایسے قیدی موجود ہیں چو چند ہزار روپے ضمانت جمع نہ کرانے کی وجہ سے برسوں سے جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ اچھا تو یہ ہے کہ حکومت ایسے قیدیوں کوخود ہی رہا کرا کے ثواب کمائے یا پھر ہمارے ملک کے مخیرحضرات اپنی گرہ سے رقم ادا کر کے ان ہزاروں افراد کی دعائیں لیں۔ میاں جی نے جس مشقتی کو رہائی دلوائی وہ 10 سال سے ضمانت ہونے کے باوجود رقم ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے جیل میں بند تھا۔ کیا یہ انسانیت پر ظلم نہیں کہ صرف ایک لاکھ روپے ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے عرصہ دراز سے جیل میں بند تھا۔ اب اس کے گھروالے تو میاں جی کو دعائیں دے رہے ہوں گے۔ کیا معلوم کس کی دعا کس وقت رنگ لائے اور میاں جی کے دن ایک بار پھر بدل جائیں ۔ بس میاں جی اور ان کے رہنما ہر ہفتے یا ہر ماہ ایک قیدی کی رہائی کی نیت کر لیں۔