قومی مفا متی فرمان؟
قومی مفا ہت فرمان پانچ اکتوبر 2007ء پرویز مشرف نے سیاست دانوں کو سیاسی ورکروں کو ، بیورو کریٹس کو اور وہ لوگ جو کر پشن میں ملوث تھے اور منی لانڈرنگ قتل کیس دہشت گردی اور اسی قسم کے بے شمار جرائم میں شامل تھے انھیں یکم جنوری 1986ء اور 12اکتوبر 1999ء کے ٹائم پریڈ کے درمیان حکومت ِ پاکستان کو غیر آئینی سپریم کورٹ 16دسمبر 2009ء کے آرڈر کے مطابق ملک کو سیاسی صورتحال سے نکالنے کے لئے یہ قومی مفاہمتی فرمان جاری کیا این آر او سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں جو میری دانست کے مطابق سب سے پہلا این آر او جس کا نام نظریہ ضرورت رکھا گیا اور جسے سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج جسٹس منیر نے قانونی اور آئینی شکل کی صورت میں پورے ملک پر لاگو کر دیا اور پھر یہ نظریہ ضرورت جب بھیِ پاکستان میں کبھی سیاسی اور آئینی بحران شروع ہوا یا پیدا کیا گیا تو اس نظریہ ضرورت کے بیساکھی کو لے کر ملک میں مارشلا ء لگا دئیے گئے کبھی یحییٰ دور میں کبھی کچھ عرصہ بھٹو صاحب نے بھی نظریہ ضرورت کا سہارا لیا اور پھر جو لائی 1977ء میں جنرل ضیاء نے اس نظریہ ضرورت کے تحت پاکستان کے سیاسی اور آئینی ڈھانچے کو تباہ و بر باد کر کے رکھ دیا اور وہ فر د واحد گیارہ برس تک جو کہ 90دن کے لئے حکومت میں آیا تھا پوری پاکستا نی قوم کو یر غمال بنائے رکھا اور پھر جب اُس کے آقائوں نے اپنے مفادات پورے کر لئے تو اُس کو بہاورلپور فضائی حادثے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑا پھر 1988ء سے 12اکتوبر 1999ء تک لو لی لنگڑی جمہو ریت قائم رہی اس جمہوریت کے دو ہی وارث تھے ایک پاکستان پیپلز پارٹی دوسرا پاکستان مسلم لیگ ن۔ اِن دو بڑی پارٹیوں نے غریب عوام کودلجمی کے ساتھ لوٹا کبھی سیف گیمز کے دس روپے کے ٹکٹ کے نام پر اور کبھی ملک بچائو قرض اُتارو کے نام پر ذاتی خزانے بھرے میرا ملک قرضوں کے دلدل میں دھکیل دیا گیا معاشی طور پر اور اقتصادی طور پر پاکستان کو سود در سود قرضوں میں دھکیل دیا گیا اور پھر بارہ اکتوبر 1999ء کا دن آگیا یہ وہ دن تھا جب پرویز مشرف نے پاکستان مسلم لیگ نواز حکومت کا تختہ اُلٹ دیا کیونکہ نواز شریف خود کو طاقت کا منبع تصور کرنے لگ پڑا تھا اور نواز حکومت سے پہلے آصف علی زرداری کی شہرت سے سب باخبر تھے بینظیر بھٹو دور میں اُس کے بھائی کو قتل کر دیا گیا تھا یہ پاکستان کی لا قانونیت کی انتہا تھی کہ ایک وزیر اعظم کے بھائی کو گھر کے قریب قتل کر دیا جائے اور پھر قاتل بھی نہ پکڑا جائے پھر مشرف دور میں جب میاں نواز شریف کو اٹک کے قلعے میں قید کیا گیا تو شریف فیملی نے اپنے غیر ملکی آقا ئوں کو مدد کے لئے بلایا اور پھر شریف خاندان کی مدد کے لئے سعودی حکومت نے پرویز مشرف سے معاہدہ کیا اور اِس معاہدے میں یہ طے پایا کہ شریف فیملی اور اِن کے ملازم تک کچھ سال کے لئے چھوڑ کر چلے جائیں گے اور کسی قسم کی کوئی سیاسی سر گرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے مگر پھر پانچ اکتوبر 2007ء کو دُبئی میں ایک این آر او تیار کروایا اِس این آر او میں لبنان کے ایک صنعت کا ر حریری بھی شامل تھے چند عرب ریاستیں بھی اِن میں شامل تھیں اور جس کی بناء پر اور جس این آر او کے تحت بینظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی اجازت مل گئی اور بینظیر بھٹو اِ س شرط پر پاکستان واپس آئیں کہ میاں محمد نواز شریف کو بھی پاکستان آنے کی اجازت دی جائے جب کے بینظیر بھٹو کو یہ کہا جارہا تھا کہ پاکستان مت جائیں آپ کی جان کو خطرہ ہے مگر وہ ایک نڈر بہاد ر باپ کی نڈر اور بہادر بیٹی تھیں اُس نے اِن تمام باتوں کو پس ِ پشت ڈال دیا مگر جس وقت وہ پاکستان کے شہر کراچی میں پہلی دفعہ اُتریں اور اپنے پارٹی کے ورکروں کے ساتھ ایک بلٹ پروف گاڑی میں جارہی تھیں تو اُن کے اُس جلسے پر بموں سے دھماکہ کیا گیا خوش قستمی سے محترمہ بنیظیر بھٹو تو اُس دن بچ گئیں مگر بے شمار اُن کی پارٹی کے کارکن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں افراد معذور ہوگئے کسی کا ہاتھ کٹ گیا کسی کا بازو نہ رہا مگر اُس کے باوجود بھی بینظیر بھٹو نے ہمت نہ ہاری اور انھوں نے ملک میں سیاسی جمہوریت کو فروغ دینے پر زور دیا اِسی اثنا ء میں 27دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کو راولپنڈی لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا اُن کے بعد حکومت آصف علی زرداری نے بطور سربراہ ِ مملکت پاکستان سنبھال لی اور میاں نواز شریف کے ساتھ ایک این آر او طے کیا جس میں یہ لکھا گیا کہ ایک دفعہ آپ کی حکومت آئی گی پاکستان میں اور ایک دفعہ پیپلز پارٹی حکومت کیا کرے گی اِن دونوں لیڈروں کو ملک کی غریب عوام سے کوئی محبت نہیں تھی ، یہ تو بھلا ہو تحریک انصاف کا جس نے اِن لوگوں کو ٹف ٹائم دیا اور اوپر سے بھلا ہو پانامہ لیکس والوں کا جنھوں نے اشرفیہ کے پول کھول دئیے اور یہ دونوں پارٹیاںہوایہ کہ عوام میں ننگی ہوگئیں اور پھر جب اِن کے خلاف مقدما ت سامنے آئے تو اِ ن لوگوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح سے وہ کر پشن کے اِ س بھوت سے اپنی جان جائیداد اور اولادوں کو بچا سکیں مگر مجھے اب ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا گو کہ یہ لوگ اب بھی عدلیہ کو عسکری اداروں کو اور اُن تمام افراد کو کبھی دھمکیاں دے رہے ہیں کبھی معافیاں مانگنے کے چکر میں ہیں کہ کسی طرح سے یہ بچ سکیں اور کبھی کبھی اپنے پارٹی کے جیالوں اور متوالوں سے ایسی ایسی زبان استعمال کرواتے ہیں کہ وہ ادارے جو اِن کے خلاف مقدمات سن رہے ہیں اور تحقیقات کر رہے ہیں وہ ڈر کر اور گھبرا کر اِن لوگوں کو این آر او دے دیں۔ گزشتہ دنوں پی ایم کی چیف جسٹس سے ملاقات کا شہرہ رہا جس کا مرکزی خیال تھا کہ نہ کوئی آر او ہوگا اور نہ ہی کوئی کسی قسم کے بیرونی ملکوں کے دبائو پر این آر او نہیں کیا جائے گا جو کچھ بھی فیصلے ہوں گے وہ پاکستان کے آئین کہ مطابق ہوں گے اور یہی اعلان پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اعلان کر رکھا ہے ۔ التماس صرف اتنی ہے کہ خدا کے لئے اس دفعہ اِ س قوم پر کوئی این آر اومسلط مت کیجئے گا اگر ایسا ہوا تو یہ ملک پاکستان کی تباہی کا باعث بن جائے گا کیونکہ غریب کی کوئی شنوائی نہیں اور امیر کو این آر او دئیے جاتے ہیں ایک روٹی چوری کرنے والے کی تو ضمانت نہیں ہوسکتی ہاں مگر ایک ملک چوری کرنے والا سرِ عام دنندناتا پھر تا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے کیوں نکلا ؟