خواجہ خواجگان فیض پور شریف
123واں سالانہ عرس مبارک آج سے حضرت پیر محمدحبیب الرحمن کی سرپرستی میں ہورہا ہے
اعلیٰ حضرت خواجہ خواجگان حضرت خواجہ حافظ پیر محمد حیات ؒ، حضرت ثانی مظہر الطاف سبحانی حضرت خواجہ حافظ پیر محمد علیؒ،حضرت ثانی سلطان العارفین حضرت خواجہ مولانا پیر محمد فاضل ؒ ، حضورقبلہ عالم قبلہ پیر محمد عتیق الرحمنؒ و عالمی مبلغ اسلام حضرت مولانا پیر محمدحبیب الرحمن خواجگان فیض پور شریف کا فیضان گذشتہ دو صدیوںسے جاری ہے اور ان پاکان امت و مقبولان باگاہ کی تبلیغ و اشاعت کے اشرات ملک و بیرون ملک دور دور تک پھیل چکے ہیں، آستانہ عالیہ فیض پور شریف کا یہ اعجاز ہے کہ یہاں اول شریعت اور بعد طریقت و تصوف کادرس دیا جاتا ہے اس روحانی مرکز سے گذشتہ ڈیڑ ھ صدی کے زائد عرصہ میں لا تعداد مخلوق خدا فیضیاب ہو چکی ہے۔ اعلیٰ حضرت خواجہ حافظ پیر محمد حیات ؒ کو ابتداء ہی سے گوشہ نشینی و خلوت نشینی کا بیحد شوق تھا ٹنگروٹ شریف سے نیچے اُتریں تو دریائے جہلم رواں ہے دریا کے آرپار آپ کی زمینیں تھی اور آپ مصلیٰ بچھا کر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے آپ حصول علم کیلئے نکلے تو حصول علم کے ساتھ ساتھ باطنی منازل بھی طے کی ٹنگروٹ شریف واپس آکر ایک علمی وروحانی مرکز کی بنیاد رکھی اور لاتعداد مخلوق کو فیضیاب کیا،آپ شریعت و طریقت کے علمبردار تھے آپ کی باطنی توجہ کا یہ عالم تھا کہ جب یاد الٰہی کیلئے مریدین آپ کے حلقہ ذکر میں بیٹھتے تو موسم سرما کی یخ بستہ راتوں میں خوف خدا سے پسینہ جاری ہو جاتا، مشائخ عظام آپ کی بیحد قدر کرتے ، حضرت غریب نواز قاضی سلطان محمودؒ آوان شریف، حضرت پیر سید حیدر علی شاہ ؒ جلالپور شریف، حضرت پیر سید جماعت علی شاہ ؒ علی پور شریف، حضرت میاں محمد بخش ؒ کھڑی شریف ، حضرت سائیں نور صاحبؒ ٹنگروٹ شریف اور دیگر بیشمار علماء و صوفیاء نے آپ کے باطنی مقام کی تعریف کی آپکی طبیعت مبارک ناساز ہوئی تو تین ربیع الاول 1334ہجری 9جنوری 1916ء جمعتہ المبارک نمازاشراق ادا کر کے آپ نے صاحبزادگان و خدام کو قریب بلا کر خصوصی ارشادات فرمائے اور باری باری ہاتھ بڑھا کر سب سے مصافحہ فرمایا کلمہ طیبہ کا ورد ہوا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔وصال کے دوسرے دن چار ربیع الاول بروز ہفتہ بعد از نماز ظہر نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا رسل و رسائل اور سفر کے وسائل کی کمی کا زمانہ تھا مگر نہ جانے کہاں کہاں سے اور کیسے کیسے مخلوق خدا ٹوٹ پڑی۔ حضرت اعلیٰ خواجہ حافظ پیر محمد حیاتؒ کے لخت جگر غوث زماں حضرت خواجہ حافظ پیر محمد علیؒ سے ہر طرف سے آئی ہوئی مخلوق خدا ملاقات کر رہی تھی اور بلا شک و شبہ آپ اپنے والد گرامی ؒ کے فیضان کا مظہر تھے آپ کا بچپن لڑکپن عبادت و ریاضت میں گزرااور اپنے والد گرامی قدر کی بے پناہ توجہات حاصل رہی حضرت حافظ محمد شفیع ؒ ، حضر ت حافظ محمد نوابؒ ، حضرت حافظ علی احمدؒ بھی حضرت خواجہ حافظ پیر محمد حیاتؒ کے صاحبزداگان تھے ان سب کو اپنے والد گرامی سے علمی باطنی و روحانی تربیت حاصل تھی حضرت اعلیٰ خواجہ حافظ پیر محمد حیات ؒکی نماز جنازہ سے قبل حضرت علامہ مولانا عبداللہ کھمبائی ؒ المعروف مولانا صاحب پہاڑ والے ،حضرت مولانا محمد ابراہیم سیاکھوی ؒ اور حضرت مولانا عبداللہ لدڑ ویؒ نے حاضرین سے خطابات کیے اور حضرت خواجہ حافظ پیر محمد حیاتؒ کے فیوض و برکات بیان کیے حضرت خواجہ حافظ پیر محمدحیاتؒ نے اپنے لخت جگر نور نظر حضرت خواجہ حافظ پیر محمد علیؒ کو ان کے پچپن ہی میں حضرت پیر سید لطف شاہ ؒ رواتڑہ شریف کے ہاتھ پر بیعت کرایا اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ زبیریہ کی خود اجازت و خلافت عطا فرمائی ۔بعدا زاں حضرت خواجہ حافظ پیر محمد علیؒنے آپ کی خصوصی اجازت سے دربار عالیہ آوان شریف میں کافی وقت گذارا اور حضر ت غریب نواز قاضی سلطان محمودؒ آوان شریف سے سلسلہ عالیہ غوثیہ قادریہ میں بھی خلافت حاصل کی اور صاحب آوان شریف ہی کے ارشاد کے مطابق عظیم مجذوب درویش حضر ت سائیں نور صاحب ؒ سے بھی اکتساب کیا حضرت خواجہ حافظ پیر محمد علی ؒ کی تبلیغ و اشاعت کے اثرات بھی دو ر دور تک پہنچے 1964ء میں آپ نے اپنے لخت جگر حضرت خواجہ پیر محمد فاضل ؒ اور اپنے پوتے حضرت مولانا پیر محمد عتیق الرحمنؒکے ہمراہ حج اد اکیا اور حج سے واپسی پر دو ماہ بعد آپ کا وصال ہوا ہزاروں متعلقین نے حضرت خواجہ پیر محمد فاضل ؒ کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا کی اور فیض پور شریف میں آپکی تدفین ہوئی اسکے ٹھیک تین سال بعد منگلا ڈیم بنا توآپ کا جسم مبارک تدفین سے ٹھیک تین سال بعد جب قبر سے نکالا گیا تو سارا جسم مبارک سلامت او راصل حالت میں تھا اور تین سال بعد ہزاروں لوگوں نے آپکی دوبارہ نماز جنازہ ادا کی اور سارا دن زیار ت کی۔ حضرت خواجہ حافظ پیر محمد علیؒ کے لخت جگر و جانشین حضرت علامہ خواجہ پیر محمد فاضلؒ اسم با مسمٰی تھے ولی کامل کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات میں تاثیر تھی کہ آپ نے دنیا کے علم وفضل اور زہد وورع کے ماہ کامل اسم بامسمی ثابت ہوئے آپ نے دینی علوم کی تکمیل بر صغیر کے اعلیٰ مدارس میں کی اور دورہ حدیث جامعہ مظہر اسلام بریلی شریف میں کیا۔ بریلی شریف سے واپس ٹنگروٹ شریف پہنچتے ہی آپ کو اپنے والد گرامی حضرت خواجہ حافظ پیر محمد علیؒ نے سلاسل طریقت کی خلافت و اجازت عطا فرمائی آپ نے تبلیغی تدریسی علمی و روحانی تسلسل کو بہت وسعت دی۔ 15مئی 1991ء بروز بدھ نماز فجر باجماعت ادا فرما کر سلاسل طریقت کے ختمات پڑھے اچانک آفتاب ولایت شفق میں غروب ہو گیا۔ قبلہ پیر محمد عتیق الرحمن ؒنے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت خواجہ حافظ پیر محمد علیؒ کے پہلو میں آسود ہ خاک کیا گیا،آپ کے لخت جگر و نور نظر مبلغ اسلام حضرت علامہ پیر محمد عتیق الرحمنؒ آستانہ عالیہ فیض پورشریف کے سجادہ نشین بنے آپ کی تمام علمی وروحانی تربیت اپنے والد گرامی نے کی آپ نے1964ء میں اپنے جدِ امجد والد گرامی اور والدہ ماجدہ کے ہمراہ حج بیت اللہ و مدینہ منورہ میں حاضری کا شرف حاصل کیا۔ مکہ مکرمہ سے منٰی جاتے ہوئے اسی گاڑی میں سوار جمعیت علماء پاکستان کے سابق صدر و تحریک پاکستان کے رہنما مولانا عبدالحامد بدایونیؒ بھی ساتھ ہو گئے اور انہوں نے آپ سے تلاوت قرآن مجید سنی اور خوش ہو کر آپ کو انعام دیا اس سفر میں مدینہ منورہ میں آپکی علامہ شیخ ضیاء الدین مدنی اور مولانا عبدالغفور مدنی سے بھی ملاقاتیں ہو ئی۔ 1975ء میں حضور قبلہ عالم قبلہ پیر محمد عتیق الرحمنؒ نے جمعیت علماء جموں وکشمیر کی قیادت سنبھالی اور اہلسنت کو متحد و منظم کیا آپ نے علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ، علامہ سید احمدسعید کاظمیؒ ، مولانا عبدالستار خان نیازیؒ ، حضرت پیر سید برکات احمد شاہؒ جلالپور شریف ، علامہ سید محمود شاہ ؒگجراتی کے ہمراہ ملک کے طول و عرض کے دور ے کیے اور بیرون ملک متعدد ممالک میں بھی جا کر دین کے لئے خدمات سر انجام دیں۔ آپ کے ہاتھوں پر کئی غیر مسلموں نے بھی اسلام قبول کیا ، پیر محمد عتیق الرحمنؒسال 2001/2006/2011 میںمسلسل تین بار آزاد کشمیر قانو ن ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور وزرات کے منصب پر بھی فائز رہے ،سال 2002 میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں آپ کی پیش کردہ قرارد ادمیں اتفاق رائے سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیااور آپ نے اسمبلی میں عقیدہ ختم نبوت پر ایک گھنٹہ خطاب کیا، حضور قبلہ عالم قبلہ پیر محمد عتیق الرحمنؒ کی زندگی دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت ،پاکستان کے تحفظ و استحکام، عقیدہ توحید و عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے وقف تھی، شدید علالت کے باوجود بھی فتنہ قادیانیت سے امت کو آگاہ کرنے کیلئے ختم نبوت کانفرنسز کا انعقاد کرتے رہے ، 18 مارچ 2018 بروز اتوار صبح8 بجے کے قریب طبیعت ناساز ہوئی اورختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگا کر کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد چند ہی منٹوں میں جان جان آفریں کے
سپرد کر دی، اور آپ کی نماز جنازہ برطانیہ میں دینی خدمات انجام دینے والے برادر اکبر مبلغ اسلام حضرت مولانا پیر محمد حبیب الرحمن نے پڑھائی اور آپ کو والد گرامی کے پہلو میں آسودہ خاک کیا گیا ،آستانہ عالیہ کاسالانہ عرس مبارک جو 1895ء کو شروع ہوا، 18چیت یکم اپریل بروزاتوار کو 124واں سالانہ عرس مبارک عالمی مبلغ اسلام پیر طریقت حضرت پیر محمدحبیب الرحمن کی سرپرستی میں آستانہ عالیہ فیض پور شریف میں انعقاد پذیر ہورہا ہے ۔