پنجاب اسمبلی : ٹیکنیٹکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی ترمیمی بل منظور
لاہور (خصوصی رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار +کامرس رپورٹر+ نیوز رپورٹر) پنجاب اسمبلی نے پنجاب ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی بل کثرت رائے سے منظور کر لیا، ایوان کو بتایا گیا ہے کہ ترقیاتی منصوبے میں بے قاعدگیوں پر 2011ءمیں معطل ہونے والا واسا کا ڈی ایم ڈی آپریشن اور اس کی انکوائری کرنے والا افسر اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک انکوائری مکمل نہیں ہو سکی، پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت دس بجے کی بجائے دو گھنٹے چالیس منٹ کی غیر معمولی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار شیر علی گورچانی کی صدارت میں شروع ہوا۔ صوبائی وزیر ملک تنویر اسلم نے محکمہ ہاﺅسنگ، شہری ترقی اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے۔ ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا بہاولپور کے مختلف منصوبوں کے فنڈز میٹرو بس منصوبے کو مکمل کرنے کےلئے لاہور منتقل کئے گئے کیا صوبائی وزیر ہمیں یقین دہانی کرائیں گے کہ ہمیں یہ رقم واپس ملے گی۔ جس پر صوبائی وزیر نے کہا کہ کوئی بھی حکومت آتی ہے اس کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ میٹرو بس منصوبے کو لٹکایا نہیں جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے پنجاب کے کسی بھی حصے کے مقابلے میں جنوبی پنجاب کو سب سے زیادہ فنڈز دئیے ہیں۔ حکومتی رکن راحیلہ خادم کے سوال کے جواب میں ملک تنویر اسلم نے بتایا کہ ڈی ایم ڈی واسا سید اقتدار علی شاہ، ڈائریکٹر طارق محمود اور ایکسین محمد اشفاق ترمذی کو ڈی جی ایل ڈی اے نے مختلف بے قاعدگیوں پر ستمبر 2011ءمیں معطل کیا گیا۔ چیئرمین ایل ڈی اے نے ای ڈی او ورکس اینڈ سروسز محمد جاوید الیاس کو ریگولر انکوائری کر کے رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تاہم سید اقتدار علی شاہ اور انکوائری افسر محمد جاوید الیاس اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن انکوائری رپورٹ موصول نہیں ہوئی جس پر پورے ایوان میں حیرانگی کا اظہار کیا گیا۔ صوبائی وزیر نے بتایا کہ واٹر سپلائی سکیم ٹولہ بانگی خیل ضلع میانوالی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 5.560ملین میں سے 4.330ملین سے مکمل کی گئی لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سکیم چالو نہیں ہو سکی۔ سرکاری کارروائی کے دوران صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثناءاللہ خان نے مسودہ قانون (ترمیم) پنجاب ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی 2015ءایوان میں پیش کیا۔ ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس آج جمعہ صبح نو بجے تک کیلئے ملتوی کر دیاگیا۔ قبل ازیں پنجاب کے وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے کہا ہے کہ زرعی انکم ٹیکس کی حد انڈسٹری پر عائد انکم ٹیکس کی حد کے برابر لانے کے لئے محکمہ خزانہ سے رابطہ کیا ہے، زرعی انکم ٹیکس کی 80ہزار کی حد نا مناسب ہے اسے انڈسٹری کی طرح کم سے کم چار لاکھ آمدن تک ہونا چاہیے، زرعی لوازمات پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح انتہائی کم کی ہے تاہم اس وقت آئی ایم ایف کے پروگرام کے باعث ان کو مکمل ختم نہیں کر سکتے، پاکستان جیسے ہی آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلے گا تو جی ایس ٹی مکمل طور پر ختم کر دیا جائےگا، پاکستانی کاشتکاروں کو بھارت کے مقابلے میں زیادہ سہولتیں دے رہے ہیں جس کے باعث ہماری فصلوں کی پیداوار اور معیار بھارت کے مقابلے میں بہت بہتر ہے، امسال گنے کے کاشتکاروںکو 80 فیصد ادائیگیاں مکمل ہو چکی ہیں جبکہ گزشتہ سال 90فیصد ادائیگی کی گئی، کاشتکاروں کو ادائیگی نہ کرنے والی شوگر مل کو سیل کیا گیا ہے۔ انہوں نے حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے نکات کا جواب اور حکومتی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم بھارت سے ٹماٹر اور سویا بین منگوا رہے ہیں تو ہم اس کے مقابلے میں اسے پیاز، جپسم اور کھجور سمیت دیگر اشیاءبھیج رہے ہیں اور توازن تجارت پاکستان کے حق میں ہوتا جارہا ہے۔ پنجاب حکومت کسانوں کو سبسڈی دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ آج بھی بھارت اور بنگلہ دیش سمیت 70 ممالک کے مقابلے میں ڈیزل کا ریٹ کم ہے جیسے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے ویسے ہی پاکستان میں فوری طور پر کمی کر دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے 2008ءسے 2011ءتک کسانوں کو 50 فیصد سبسڈی پر 30ہزار ٹریکٹرز دیئے، ماضی میں کسی اور حکومت نے ایسا اقدام نہیں اٹھایا۔ وزیر زراعت کی تقریر کے دوران پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد ارشد نے نقطہ اعتراض پر ڈپٹی سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن زراعت پر بحث رکھوا لیتی ہے لیکن افسوسناک صورتحال ہے کہ وزیر زراعت کی تقریر کے وقت ایوان میں اپوزیشن کا ایک بھی رکن موجود نہیں۔ جس پر ڈپٹی سپیکر شیر علی گورچانی نے اپوزیشن کے ایوان میں موجود نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا اور ساتھ ہی حکومتی رکن اسمبلی شیخ علاﺅ الدین کے بارے میں بھی ریمارکس دئیے کہ وہ بھی آئے روز تحریک التوائے کار جمع کراتے ہیں لیکن وہ بھی اس وقت ایوان میں موجود نہیں ہیں۔
پنجاب اسمبلی