ٹیم رینکنگ میں تنزلی کی وجہ نوجوان کھلاڑیوں کی کمی ہے: چیئر مین پی سی بی
لندن( صباح نیوز) چیئرمین شہریار خان نے کہا کہ پاکستان نے سری لنکا میں ایک روزہ میچوں کی سیریز تو جیت لی لیکن ٹیم کی رینکنگ میں تنزلی کی وجہ کھیل کے بدلتے رویوں اور رجحانات، خود کو بدلنے میں ناکامی اور اسکواڈ میں نوجوان کھلاڑیوں کی کمی ہے۔ پاکستانی ٹیم نے نویں درجے پر موجود ویسٹ انڈیز پر سبقت لیتے ہوئے 2017 چیمپیئنز ٹرافی میں رسائی کے امکانات بھی روشن کر لئے۔ لندن میں ایک انٹرویو کے دوران شہریار خان نے کہا ہم ابھی تک 1980 اور 90 کی دہائی میں موجود اور اس وقت کھیلی گئی کرکٹ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ہم نے شعیب ملک اور محمد سمیع کو ٹیم میں واپس آتے دیکھا اور اگر میں سلیکٹرز کے سامنے رکاوٹ نہ ہوتا تو وہ اس سے بھی زیادہ پرانے کھلاڑیوں کو ٹیم میں واپس لے آتے۔انہوں نے کہا سلیکٹرز ایسے کھلاڑیوں کو موقع دینے سے کتراتے ہیں جنہیں وہ نہیں جانتے اور انہیں موقع دینا چاہتے ہیں جنہیں وہ جانتے ہیں۔وہ سہیل تنویر، توفیق عمر اور ناصر جمشید کو ٹیم میں شامل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ مصباح الحق اور وقار یونس انہیں جانتے ہیں۔لیکن جب وہ ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو میں ان کے سامنے رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جاتا ہوں، حقیقتاً پھر حتمی فیصلہ میرا ہی ہوتا ہے۔چیئرمین پی سی بی نے شعیب ملک کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی اہمیت کو ثابت کردیا حالانکہ انہیں شعیب کی ٹیم میں واپسی پر تحفظات تھے۔شہریار خان پاکستان سپر لیگ کے مستقبل کے حوالے سے زیادہ پرامید نظر نہیں آئے۔ چیئرمین پی سی بی نے مزید کہا کہ اگر سیکیورٹی خدشات کی بنا پر نامور کھلاڑی لیگ میں شرکت نہ کرتے تو بھی وہ اسے پاکستان میں ہی منعقد کرانا چاہتے تھے۔انہوں نے کہا کہ میں نے ممکنہ وینیوز کے طور پر کراچی، لاہور، فیصل آباد اور ملتان کے نام تجویز کیے اور میرا ماننا تھا کہ اگر اچھی رقم کی پیشکش کی جاتی تو بڑے کھلاڑیوں کو پاکستان میں کھیلنے پر آمادہ کیا جا سکتا تھا۔ ہمیں کیون پیٹرسن، گلین میکس ویل اور اے بی ڈی ویلیئرز جیسے بڑے کھلاڑی میسر نہ ہوتے لیکن پیسوں کی قلت کا شکار کھلاڑی جیسے ڈیوین براوو، جیسن ہولڈر، ایلٹن چگمبرا اور کچھ سری لنکن کھلاڑی کھیلنے پر آمادہ ہو سکتے تھے۔انہوں نے کہا کہ ان کھلاڑیوں کو کچھ رقم دینی پڑتی، اس طریقے سے ہم میدانوں کو بھر سکتے تھے اور اس سے ناصرف غیر ملکی کھلاڑی پاکستان میں کھیلتے بلکہ اگلے سال پی ایس ایل کے لیتے بڑا اسٹیج سیٹ ہوجاتا جہاں ہم متحدہ عرب امارات کے میدانوں تک رسائی حاصل کر لیتے۔پاکستان رواں سال کے آخر میں انگلینڈ کی متحدہ عرب امارات میں میزبانی کرے گا۔ متحدہ عرب امارات اچھا لیکن مہنگا ہے اور وہاں ہم زیادہ شائقین کو لانے میں بھی کامیاب نہیں ہوتے۔ بنگلہ دیش بہت اچھا متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔ جنوبی افریقہ بھی متبادل میں سے ایک ہے اور وہ ہماری میزبانی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم دونوں بورڈز سے بات چیت کر رہے ہیں۔