جمعۃ المبارک ‘ 14 شوال ‘ 1436ھ ‘ 31؍ جولائی 2015ء
ماڈل گرل ایان کی گرفتاری کے بعد منی لانڈرنگ میں کمی آ گئی۔
یاران سیاست ہوں یا یاران تجارت سب تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے کاروبار میں ملوث لوگ کچی گولیاں نہیں کھیلتے۔ یہ وہ عارضی تعطل ہے جو صرف اس سبب آیا ہے کہ یہ کاروباری شاطر دیکھنا چاہتے تھے کہ اس خطرناک کیس میں خوبرو ماڈل کے ساتھ قانون کیا سلوک کرتا ہے۔ مگر افسوس ہمارے ملک میں قانون کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے یہاں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے اور ایک پولیس افسر کی جان کی قربانی کے باوجود قانون اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی نہیں اتار پاتا۔ شاید اس پٹی پر سونے کی گرہ لگی ہوئی ہے۔ ایان جیسی ہزاروں لڑکیاں اس سونے کی گانٹھ لگانے والوں کے ہاتھوں مہروں کی طرح استعمال ہوتی ہیں۔ یہ تو وہ خوبصورت گڑیاں ہیں جن کو غیر قانونی مال وزر میں لپیٹ کر خوبصورت پیکنگ کے ساتھ من پسند ملک کے بنکوں میں رکھوانے کیلئے بھیجتے ہیں اگر کبھی کوئی گڑیا پکڑی جائے یا مال وزر ضبط ہو جائے تو انہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ یہ لوگ ہمارے قانون کی خامیوں اور خوبیوں سے آگاہ ہیں۔ اور یہ اسی سونے کی چابی سے بہت سی جیلوں کے دروازے تک کھول لیتے ہیں یہی کچھ ہمارے سامنے ایان کیس میں ہو رہا ہے۔
ایان کے حوالات میں جیل میں ناز نخرے، عدالت میں بن ٹھن کر پیشیاں یونہی نہیں ہوتی تھیںاس کے پیچھے بڑے بڑے باوقار لوگوں کا دست شفقت تھا۔ اسی غیبی مدد کی بدولت ایان آج کھلی فضا میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہنستی مسکراتی ہمارے نظام اور قانون کا مذاق اڑا رہی ہے۔ رہی بات منی لانڈرنگ میں کمی کی تو یہ صرف ہمیں بتایا جا رہا ہے ورنہ گلشن کا کاروبار تو اسی خیروعافیت سے جاری وساری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کاروبار میں ملوث شرفا کب کے اندر ہو چکے ہوتے۔
٭…٭…٭…٭
ہڑتال کی کال دینے والے تاجر رہنمائوں کے اثاثوں کی چھان بین شروع۔
یہ تو نماز بخشوانے جانیوالوں کے گلے روزے پڑتے معلوم ہوتے ہیں۔ ٹیکس چوری میں ہماری تجارتی و صنعتی برادری کا کوئی جواب نہیں کروڑوں روپے کمانے والے چند ہزار روپے ٹیکس دینا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اربوں کھربوں روپے کے پلازے جائیدادیں رکھنے والے اس سے حاصل شدہ آمدنی میں سے چند روپے ٹیکس دینا اپنے پر ظلم عظیم خیال کرتے ہیں جس ملک کا کھاتے ہیں اسکی تعمیروترقی کیلئے ایک دھیلا بھی دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ سارا زور اور مملکت کا بوجھ صرف سرکاری ملازمین پر ڈالا جاتا ہے جن کی تنخواہوں سے ٹیکس کٹتا ہے اگر یہ نہ ہو تو شاید یہ بھی ٹیکس چوری میں اپنے صنعتی و تجارتی بھائیوں کے دوش بدوش نظر آئیں۔
اب ملک بھر کے تاجروں نے کمال یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اضافی ٹیکس دینے سے انکار کیا ہے۔ ہمارے سرمایہ دار وصنعتکار حکمران اور وزیر خزانہ کیا فرماتے ہیں اس اتحاد کے بارے میں۔ ویسے تو اتحاد میں بہت برکت ہے۔ مگر یہ اتحاد حکومت کو بہت چھُب رہا ہو گا۔ اسی لئے تو حکومت بھی ساجھے کی یہ ہنڈیا بیچ چوراہے کے پھوڑنے کیلئے عملی اقدامات کر رہی ہے اور ان تمام تاجر رہنمائوں کے اثاثوں کی چھان بین شروع کر دی گئی ہے جو بے چارے حالات کی تنگی کے باعث مزید ٹیکس کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ اسکے ساتھ ہی حکومت کو اپنی منجی تلے بھی ڈانگ پھیرنا ہو گی کیونکہ ٹیکس وصول کرنیوالے ادارے بھی ٹیکس چوری میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں ٹیکس دینے والے تو بھولی بھالی بھیڑیں ہیں یہ ادارے ہی ان کو چالاکی کرکے ٹیکس چوری کے ایسے ایسے گُر سکھاتے ہیں کہ یہ بھیڑیں بھیڑیئے بن جاتے ہیں اور شکرانے کے طور پر ان سرکاری اداروں کے ملازمین کے منہ موتیوں سے بھر دیتے ہیں اب ذرا ٹیکس وصول کرنیوالے اداروں کے ملازمین کے اثاثوں کی بھی چھان بین شروع کی جائے تو مزہ دوبالا ہو جائیگا۔ فی الحال تو بے چارے تاجروں کو اپنی جان کے لالے پڑتے نظر آ رہے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
علامہ طاہرالقادری نے دہشت گردی کیخلاف درسی نصاب تیار کر لیا۔
اب پنجاب ٹیکسٹ بورڈ سمیت تمام صوبوں کی درسی کتب تیار کرنیوالے ٹیکسٹ بورڈوں کا کام ہے کہ وہ پہلی فرصت میں علامہ صاحب سے رابطہ قائم کرکے ان سے یہ نصاب حاصل کرکے درسی کتب میں شامل کر لیں۔ ورنہ اگر کسی اور ملک کو اس عظیم کارخیر کی بھنک بھی پڑ گئی تو وہ یہ درسی نصاب ہم سے پہلے ہی نہ اچک لیں۔
ایک بات سمجھ نہیں آ رہی کہ علامہ ایک طرف دہشت گردی کیخلاف فتویٰ بھی دیتے ہیں۔ کتابیں بھی لکھتے ہیں اب تعلیمی نصاب بھی مکمل کر چکے ہیں تو گزشتہ برس انکے دھرنے میں جو کچھ ہوا اس میں ان کی تعلیمات کا عکس نظر کیوں نہیں آتا۔ خود علامہ صاحب بھی جب تقریرکرتے ہیں تو لگتا ہے طبل جنگ بجا رہے ہیں۔ اینٹ سے اینٹ بجا دینا انکے بائیں ہاتھ کا کھیل لگتا ہے۔ اب داعش اور اس سے پہلے القاعدہ اور طالبان کی سخت گیر مذہبی پالیسیوں کے مقابلے میں انہوں نے اسلام کا ایک نرم چہرہ دنیا کے سامنے لانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ ان کے مخالفین کو تو قبول نہیں۔ انکے حامی بھی جو اسلامی انقلاب کے داعی ہیں۔ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں ہنوز کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اب وہ سکولوں کی سطح سے بچوں کو اپنے مرضی کے مطابق اپنے نظریات کیمطابق لبرل اسلامی تعلیمات کے ذریعے نرم خو نرم دل انسان بنانے کی سعی کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ کہ وہ اس میں کتنا کامیاب ہوتے ہیں۔ ہمیں تو خطرہ ہے کہیں سخت گیر موقف رکھنے والے ان کے پرجوش حامیوں کو ہائی جیک نہ کر لیں اور درود والوں میں بھی بارود والے پیدا ہو جائیں۔ اب اپنی تعلیمات کو سرکاری نصاب بنانے کیلئے دیکھنا ہے علامہ صاحب کب حکومت سے رابط کرتے ہیں۔ یا حکمران کب دہشت گردی سے نجات کے اس سنہری فارمولے کو منہ مانگے داموں خرید کر ملک میں امن و چین کی بنسری بجاتے ہیں۔