ہفتہ‘ 10؍ ربیع الثانی‘ 1436ھ‘ 31 ؍ جنوری 2015ء
میں ٹھنڈے پانی سے نہا سکتا ہوں اہلیہ اور بچی نہیں، اس لئے بجلی کا بل جمع کرایا : عمران خان!
عمران خان کے اس بیان سے تو یوں لگتا ہے کہ جناب دھرنے سے اٹھنے کے بعد عقل سلیم سے بھی فارغ ہو گئے ہیں۔ بجلی کا بل جمع کروانے کی ایک سو ایک توجیہات پیش کی جا سکتی تھیں لیکن خان نے بونگی دلیل گھڑ کر ہر جگہ اپنا ہی تمسخر اڑایا ہے۔ اردو کی ضرب المثل ہے‘ ’’پانی پیا منہ پر آتا ہے‘‘ یعنی راز چھپائے نہیں چھپتا۔ کچھ لوگ تو خان کی بات سُن کر کہیں گے کہ وہ صاف گو ہیں اس لئے انہوں نے حقیقت بیان کی ہے۔ عمران خان بڑی بات کہہ گئے، کہا جاتا ہے العاقل تکفیہ الاشارہ کہ عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ عمران خان نے اشارہ کیا تو لوگوں نے اس پر اپنی منشا کے مطابق حاشیہ لگانا شروع کر دیا۔ سوشل میڈیا پر دن بھر اس پر بات ہوتی رہی اور اودھم مچا رہا کیونکہ بقول شاعر …؎
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
عمران خان نے میڈیا کے سامنے اسی شعر پر عمل کیا اور ٹھنڈے پانی سے نہانے کی بات کر گئے۔ ویسے عمران خان کے اہل خانہ جنریٹر سے پانی گرم کر کے بھی نہا سکتے تھے۔ بنی گالہ میں اگر دن بھر جنریٹر چلتا رہے تو بھی عمران خان کو اب فرق نہیں پڑتا کیونکہ تبدیلی کے نام پر پیسے گٹھڑیوں کی صورت میں آنا شروع ہو گئے ہیں، نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی دنیا سے ڈالر اور یورو ایسے وارے جا رہے ہیں جیسے دیہاتوں میں دولہا پر نوٹ پھینکے جاتے ہیں۔ دھرنا ختم ہونا بھی بڑی خبر ہے شادی کی طرح وہ بھی آہستہ آہستہ آئے گی کہ خان صاحب نے اتنی جلدی میں یہ سب کچھ کیوں کیا۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
پنجاب کا نیا گورنر گونگا بہرہ ہو گا : سردار ذوالفقار کھوسہ!
سردار کھوسہ کو جواب آں غزل کے طور پر (ن) لیگی رہنما ملک کاشف باوانے ایک شعر میں یوں جواب دیا ؎
چمن کا رنگ تُو نے سراسر اے خزاں بدلا
نہ ہم نے شاخِ گل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا
ذوالفقار کھوسہ کے نزدیک تو مسلم لیگ کا ہر کارکن ہی اب گونگا اور بہرہ ہے۔ ذوالفقار کھوسہ ایک عرصہ تک خود ہی تو اسی قبیلے میں شامل رہے ہیں، جب تک انکے دودھ کے دانت تھے اور وہ بھی گونگے بہرے گروپ میں شامل رہے۔ انکے بیٹے کو وزارت اعلیٰ بھی ملی اور وہ خود گورنر پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سینئر مشیر کے مزے بھی لیتے رہے لیکن جب انکے دودھ کے دانت گرے اور حقیقی روپ سامنے آیا تو وہ آج کہاں کھڑے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ 18ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کے خصوصی اختیارات کی شق پر قومی اسمبلی میں خواجہ سعد رفیق اور جاوید ہاشمی نے ہی تنقید کی تھی صوبائی اسمبلی میں موصوف اپنے بیٹے سمیت اسکے حق میں تھے۔ جب پارٹی قائد کو آپ نے خود ہی لاتعداد اختیارات سونپے تھے تو اب آپ نئے گورنر کے بارے میں گونگا اور بہرہ جیسے الفاظ کا انتخاب کیوں کر رہے ہیں۔ اردو کی کہاوت ہے …؎
’’اپنی کرنی اپنی بھرنی ‘‘ یعنی جو جیسا کریگا ویسا ہی بھرے گا۔ ہمارے انہیں سیاستدانوں نے اپنے سیاسی قائدین کی خوشنودی کیلئے انہیں ممبر کیخلاف ریفرنس بھیجنے جیسے اختیارات سونپے تھے۔ صاف ظاہر ہے اس کے بعد گورنر کو چودھری فضل حق کی طرح یوں ہی کہنا پڑے گا کہ گورنر کو رہا کرو۔ لیکن سیاسی صاحبزادگان کی موجودگی میں اب وہ رہا نہیں ہو سکتے۔ کہا جاتا ہے کہ دس نکٹوں میں ایک ناک والا بھی نکو ہو جاتا ہے۔ 18ویں ترمیم پاس کرنیوالوں کے سیاسی نامہ اعمال میں یہ بڑا سیاسی گناہ جلی حروف سے ہوا ہے اور ان سب نے اس پر کف افسوس کی بجائے فخر سے ہاتھ بلند کیا تھا۔ اب گونگا بہرہ کے طعنے کس منہ سے دئیے جا رہے ہیں؟
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
نجی سکولوں میں میٹرک کے طالب علم کی گولی مار کر خودکشی کی مبینہ کوشش، حالت تشویشناک!
حکومت طلبہ کو اپنی حفاظت کیلئے اسلحہ چلانے کی ٹریننگ کا سوچ رہی تھی کہ ابتدا ہی میں سانحہ ہو گیا۔ طلبہ کا خون گرم ہوتا ہے انہیں اسلحہ لے کر سرعام چلنے کی اجازت دینا یا پھر کھلے عام سکول میں اسلحہ لیکر آنے کی چھوٹ دینا بہت خطرناک ثابت ہو گا۔ سکول کی عمر میں تو طلبہ دن میں بیسیوں مرتبہ ایک دوسرے سے لڑتے ہیں کبھی کبھی وہ لڑائی خوفناک صورت بھی اختیار کر جاتی ہے اگر طلبہ کے پاس اسلحہ ہو گا تو پھر اساتذہ وہاں تعلیم کیسے دے سکیں گے۔ حکومت نجی سکول میں سامنے آنیوالے سانحہ سے سبق سیکھے، یہاں بھی تو ایک طالب علم نے دوسرے دوست کے پسٹل کو بیت الخلاء میں جا کر چلانے کی کوشش کی تو گولی لگ گئی۔ حکومت اس واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے سکولوں کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مہم چلائے اور طلبہ کو حفاظت کیلئے ٹریننگ دینے کی بجائے حفاظتی انتظامات کریں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
80 دینی مدارس کو بیرون ملک سے فنڈز ملنے کا انکشاف
تمام مدارس کو چھاننی میں رکھ کر چھانیں تو بہت سارے انکشاف سامنے آئینگے۔ مدارس جہاں جہاں بھی قائم ہیں۔ انہیں مقامی لوگوں پر مشتمل ویلفیئر کے زیر انتظام ہونے چاہئیں۔ انتظامیہ اور طلبا بھی مقامی ہوں۔ پنجاب کے مدارس میں 60 فیصد طلبا دیگر صوبوں سے آئے ہوئے ہیں۔ اگر مدارس کا نصاب ملک بھر میں یکساں ہے۔ تو پھر ان طلباء کو اپنے گھر کے قریب مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے میں کیا مسئلہ ہے۔ باہر کے شہروں کے طلباء کے پاس انکے ملنے والے بھی وہاں سے آتے ہیں۔ اور وہ آ کر یہاں گڑبڑ کرتے ہیں۔ مدرسے کو چلانے والے بھی مقامی علما ہونے چاہئیں۔ شوکت عزیز اور معین قریشی کی طرح دیگر جگہوں سے امپورٹ نہ کئے جائیں۔ پنجاب کے مدرسوں میں پنجاب کے اساتذہ اور انتظامیہ ہونی چاہئیے۔ دیگر افراد کو انتظام چلانے سے روکا جائے اس سے غیر ملکی فنڈنگ بھی رک جائیگی۔ مدارس میں اصلاحات ہو سکیں گی۔ حکومت وفاق المدارس کو اس بات پر آمادہ کرے کہ مدارس صرف مقامی علماء کرام ہی چلائیں گے۔ دیگر شہروں اور صوبوں کے علماء کرام کو انکے اپنے اصلی گھروں میں بھیجا جائے۔ تاکہ دین کے نام پر تجارت کا سلسلہ بند ہو سکے۔