جمعرات ‘ 13 شوال ‘ 1436ھ ‘ 30؍ جولائی 2015ء
’’سفارشی بچوں کو داخلہ نہ دینے کا تنازع‘‘ بورڈ آف گورنرز نے پرنسپل ایچی کالج کو ہٹا دیا۔
یہ ایک اعلی تعلیمی ادارے کے حالات ہیں جہاں ہماری ایلیٹ کلاس کے بچے پڑھ لکھ کر ہم پر حکومت کرنے کے لئے تیار کئے جاتے ہیں۔ اول تو یہاں داخلے ہی حسب ونسب، ذات پات، مالی و سماجی حیثیت دیکھ کر ہوتے ہیں۔ بالکل اس طرح جس طرح عید قربان کے موقع پر جانوروں کے دانت سینگ اور کھر دیکھ کر چھان پھٹک کے بعد ان کو خریدا جاتا ہے۔
پھر بھی سفارش نامی بیماری یہاں بھی گھر کر چکی ہے۔ جبھی تو واقفان حال کے مطابق سفارشی بچوں کو داخل کرنے سے انکار کی پاداش میں موجودہ پرنسپل کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ورنہ اس سے قبل شاید گلشن کا کاروبار اطمینان بخش طریقے سے چل رہا تھا۔
دور کی کوڑی بجا لانے والے اس برطرفی کی وجہ پرنسپل کی سابق گورنر پنجاب چودھری سرور سے سابقہ تعلقات سے بھی جوڑتے ہیں جو آج کل تحریک انصاف میں ہیں۔ وجہ جو بھی ہو تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت میرٹ کا قتل عام اب فیشن بن چکا ہے۔ کہیں انٹری ٹیسٹ کے نام پر اچھے نمبر لینے والے بچوں کو انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے نام پر والدین کو لوٹنے والی اکیڈمیوں کی فیس ادا نہ کرنے پر اعلیٰ میڈیکل کالجوں میں داخلوں سے محروم رکھا جا رہا ہے تو کہیں اچھے سکولوں میں حقدار طلبا کی بجائے ’’پدرم سلطان بود‘‘ قسم کے بچوں کے داخلے کو ترجیح دی جاتی ہے ان حالات میں پڑھا لکھا پنجاب کا نعرہ بھی شرم کے مارے کہیں ڈوب مر نہ گیا ہو۔ کیونکہ آج کل ویسے سیلاب کا موسم ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہوٹل اور ریسٹورنٹ والوں کا فوڈ اتھارٹی کے خلاف مظاہرہ۔
جب سے میڈیا نے عوام کو کھانے پینے کے نام سے زہر کھلانے پلانے والوں کے خلاف آواز بلند کی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے ہوٹلوں، ریستورانوں، فوڈ فیکٹریوں اور خوراک کے لوازمات تیار کرنے والے کارخانوں کی اصل تصویر عوام اور حکومت کے سامنے لائی تو محکمہ فوڈ کی بھی آنکھیں کھل گئیں جو عرصہ دراز سے لال اور ہرے نوٹوں کی پٹی سے بند پڑی تھیں مگر اب جس طرح ہمارے نامور فلمی لیجینڈ اداکار رنگیلا کی صاحبزادی عائشہ ممتاز ’’کھچا کھچ تے ڈزا ڈز‘‘ کرتے ہوئے عوام کی صحت کے دشمنوں کے لتے لے رہی ہیں اس نے دہلی کی پولیس آفیسر کرن بیدی کے کارناموں کو ماند کر دیا ہے۔ جنہوں نے دہلی کے غنڈوں کو تگنی کا ناچ نچایا تھا۔
چنانچہ فوڈ اتھارٹی والے کئی دنوں سے ان کی قیادت میں پے در پے ہوٹلوں، فیکٹریوں، کارخانوں اور بیکریوں پر پڑنے والے چھاپوں سے جن میں ان مقامات عالیہ سے مضر صحت اور گندی گلی سڑی اشیا حتیٰ مردار گوشت تک برآمد ہو رہا ہے جسے ہر شام لاکھوں شہری کروڑوں روپے خرچ کرکے بڑے مزے سے چٹخارے لیتے ہوئے اپنے معدوں میں اتارتے ہیں۔
اس پر ان ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ والوں نے اپنی دکانداری ماند پڑتے دیکھ کر مظاہروں کی راہ اپنا لی ہے۔ حالانکہ مظاہرے تو عوام کو کرنے چاہئیں ان لوگوں کے خلاف جوان کو خوراک کے نام پر زہر کھلا رہے ہیں۔ اگر یورپ میں ایسا ہوتا تو یہ سب عوام کی صحت کے دشمن سڑکوں کی بجائے جیلوں میں ہوتے۔ دنیا بھر میں خوراک میں ملاوٹ اور ناقص مضر صحت خوراک کی فراہمی بدترین جرائم میں شامل ہے مگر ہمارے مسلمان ہونے کے باوجود مردار اشیا تک مسلمانوں کو کھلائی جا رہی ہیں۔ اب یہ سلسلہ بند کرنا ہی پڑے گا کیونکہ اب ’’دھی رنگیلے دی دھوڑاں پٹن آ گئی جے وڈے وڈے ہوٹلاں تے ریسٹوراناں وچ‘‘۔
٭…٭…٭…٭
زید حامد کو سعودی عرب میں 150 کوڑے مارے جا چکے ہیں۔
امید ہے انہیں سعودی عرب کے اس قید خانے میں اپنے پاکستان کی آزادی بہت یاد آئی ہو گی جہاں جس کا جی چاہتا ہے منہ اٹھا کر خوب جی بھر کے اسی وطن عزیز کے خلاف مغلظات بکتا ہے۔ مگر کوئی روکنے والا نہیں کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا جو ان زبان درازوں کو لگام دے۔
زید حامد اچھے بھلے پڑھے لکھے انسان ہیں۔ عقل شعور کی بھی ان میں کمی نہیں دانشور بھی ہیں مذہبی مفکر بھی کون کون سی خوبیاں گنوائی جائیں ان کی۔ اختلاف رکھنے والے تو ان کے ڈسکو سٹائل پر بھی حرف زنی کرتے ہیں مگر حضرت من موجی ہیں سیاست، بغاوت اور شرارت جس موضوع پر جی چاہتا ہے بول پڑتے ہیں۔ آؤ دیکھتے ہیں نہ تائو بیان جڑ دیتے ہیں۔ شاید میڈیا پر رہنے کا شوق بھی ان کو بہت ہے۔ اور اسی سبب سعودی عرب میں گئے تو عمرہ کرنے تھے۔ جہاں ہر سال لاکھوں افراد جاتے ہیں۔ مگر وہ سب یاد خدا میں اپنے شب و روز وہاں بسر کرتے ہیں۔ اب محترم زید حامد کو نجانے کس نے وہاں اکسا دیا کہ جناب وہاں کی حکومت، سیاست اور نظام کے بارے میں گلفشانی کرنے لگے اور پھر اس کے بعد…
’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘
سعودی حکام کو اطلاع ملی تو انہوں نے نہ ان کا علامہ ہونا دیکھا نہ فوجی کٹ، ڈسکو سٹائل۔ ان کو یوں اچک لیا جس طرح باز کبوتر کو اچک لیتا ہے۔ اب نہ ان کی عربی دانی کام آئی نہ دانشوری الٹا 8 برس قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزا پائی۔ اس معاملے میں ہماری حکومت بھی بڑی کٹھور ثابت ہوئی ہے۔ کم از کم انہیں تو خیال کرنا چاہئے کہ بہرحال علامہ پاکستانی ہیں۔ ان کی معمولی کوتاہی کی اتنی سزا مناسب نہیں حکمرانوں کے سعودی عرب سے اچھے تعلقات ہیں۔ وہ بھی ان کی سفارش کر دیں اور ہمارے سفارت خانے والے بھی ان کی بھرپور قانونی معاونت کریں تاکہ ان کی مزید 850 کوڑوں اور 8 سال کی قید سے نجات کی کوئی سبیل نکل سکے۔
٭…٭…٭…٭