پیر‘ 3 ذوالحج 1435ھ ‘ 29 ستمبر2014ئ
آپ نے بل جمع کرا دیئے صحافی کے سوال پہ شاہ محمود قریشی برہم ہو گئے ۔ اب اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر برہم ہونے کی کیا ضرورت اگر یہ غیر ضروری غیر سیاسی سوال تھا تو پھر جوش خطابت میں آپ جیسے سیاستدان ایسی غیر ضروری اور غیر سیاسی باتیں کیوں کر جاتے ہیں جن کی وضاحت کرنی مشکل ہو جاتی ہے۔ یا بزبان شاعر کچھ اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ....بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھیجیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھیایسی صورتحال پیدا ہی تب ہوتی ہے جب آپ جیسے سیاستدان کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ آپ کے گھر میں 6بجلی کے میٹر لگے ہیں دویا تین کٹ بھی جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر غریبوں کے گھروں پہ ایک ہی میٹر ہوتا ہے جوانہیںجان کی طرح بھی پیارا ہوتا ہے کیوں کہ اس کے دم سے ان کے ڈیڑھ یا دومرلے کے گھروں میں روشنی ہوتی ہے۔ ورنہ جو اندھیرے ان کی زندگیوں کو عذاب بنا رہے ہیں انکے مقدر میں ہیں ان کے گھروں میں بھی تاریکی بن کر مسلط ہو جائیں۔ عمران کے بھی 3میٹر ہیں۔ جب یہ 6اور 3میٹر والے بل جمع کراتے ہیں اور بل جلانے کا حوصلہ نہیں رکھتے تو غریب سے یہ توقع ہی فضول ہے جو اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کرمشکل سے اپنا بجلی اور گیس کا بل جمع کراتے ہیں۔اسلئے اب اگر اس دوغلی پالیسی پر کوئی سوال پوچھے تو ہمارے سیاستدانوں کو ناراض ہونے کی بجائے تحمل سے کام لینا چاہئے ، ورنہ کل کلاں کو اگر انقلابیوں نے ،نئے پاکستان کے حامیوں نے اپنے لیڈروں سے قیمتی گاڑیوں اور بنگلوں کو چھوڑ کر چھوٹے گھروں میں رہنے، پیدل سفر کا مطالبہ کر دیا تو اس پتھر بدست لٹھ بردار ہجوم کو مطمئن کرنا ،جواب دینا بہت مشکل ہو جائے گا۔ کیونکہ اب آپ کے گریبان اور گھر ان کے دست برد سے زیادہ دور نہیں رہے ۔٭....٭....٭....٭ڈینگی کا نام رہنے دیں گے مگر اسکا نشان مٹا دیں گے وزیراعلیٰ پنجاب۔ بے شک اس عزم کا مظاہرہ پچھلی بار ڈینگی کو شکست دیکر حکومت پنجاب نے کیا ہے مگر اس کے بعد وہی دو نمبر لوگوں کی بدولت دو نمبر ادویات اور جعلی سپرے کر کے عوام کو بے وقوف بنانے والی پالیسی اختیار کی گئی۔ وہ بھی نہایت بے دلی کے ساتھ۔ اس برس تو یہ تکلف بھی گوارہ نہیں کیا گیا ۔ بس ہسپتالوں میں نمائشی اقدامات کئے گئے ایک آدھ وارڈ متاثر ین برائے ڈینگی سجایا گیا۔ ایسے میں جیسے متاثرین سیلاب کے نام پر حکمرانوںکو خوش کر نے اور ماموں بنانے کیلئے انتظامیہ ہمیشہ سے کرتی آ رہی ہے اور دورے کے بعد نہ ہسپتال ہوتا ہے نہ کیمپ۔نہ امدادی سامان یہ سب کچھ افسران سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔اور عوام.... جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی بڑی آرزو تھی ملاقات کی اس مرتبہ سیلاب کے پانی کی وجہ سے وبائی امراض پھیلے کا بھی شدید خطرہ ہے تو ڈینگی کے بھی حملہ آور ہونے کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں اب دیکھنا ہے ڈینگی اپنے نام اور نشان کی بقاءاور حفاظت کیلئے کیسے حملہ آور ہوتا ہے۔اور ہم اس سے بچاﺅ کیلئے اپنا نام و نشان بچانے کیلئے اس سے کس طرح نمٹتے ہیں ۔ بد قسمتی سے ڈینگی کے لشکر میں کوئی دو نمبر نہیں سب متحد و یکجان ہیں اور ہمارے لشکر میں دو نمبروں سے بھرے ہیں ادویات سے لے کر ڈاکٹروں تک، انتظامیہ سے لے کر عام ورکر تک بوگس اور جعلی کارکردگی دکھا کر سب اچھا کی رپورٹ دینے والے دو نمبر لوگ....٭....٭....٭....٭عید کی آمد کے ساتھ سبزیوں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئیں۔ ٹماٹر110سے 120روپے کلو تک جا پہنچا، پیاز بھی 80سے اوپر چھلانگ لگانے کی تیاری کر رہا ہے۔ رہی بات لہسن اور ادرک کی تو اس کی عیاشی کے غریب متحمل ہو ہی نہیں سکتے اسلئے ان کی قیمت کا ذکر کے کے ہم مزید ان کی عید کی خوشیاں خراب نہیں کرنا چاہتے۔ جو مظلوم پہلے ہی آلو، گوبھی،بینگن اور شلجم ٹائپ کی معمولی سبزیاں بھی مہنگے داموں خرید کر حکمرانوں کو بد دعائیں دے رہے ہیںاب ان کے دستر خوان ٹماٹر اور پیاز سے بھی محروم ہو جائینگے۔ دکاندار سیلاب کا بہانہ بنا کر من مانے ریٹ وصول کرتے ہیں۔ اور وزیر خوراک روزانہ” قیمتیں کنٹرول میں ہیں مہنگائی کی اجازت نہیں دینگے“ کا بیان جاری کرتے پھرتے ہیں ۔رہی بات پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی تو وہ جانتے ہیں سستے بازار ڈراموں میں کسطرح وزیروں کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔اس پر بس نہیں اس بارے تو جانوروں کے چارے کی قیمت بھی آسمان کو چھونے لگی جن بے چاروں نے قربانی کے جانور خرید لئے اب وہ ان کے چارے کے حصول کے لئے پریشان ہیں۔ جب بکرا یا دنبہ سو دو سو روپے کا چارہ روز کھائے گا تو گائے بیل کا خرچہ خود ہی سوچ لیں، اب جانور خریدنے والا خود کھائے یا جانور کو کھلائے ؟ حکومت کو اس سے کوئی غرض نہیں کیوں کہ انہیں تو صوبے میں مہنگائی پر کنٹرول پر سب اچھا کی رپورٹ ملتی ہے۔ اب ذرا خادم اعلیٰ کسی دن چہرہ چھپائے خاموشی سے پیاز اور ٹماٹر ہی خریدنے نکلیں تو انہیں سبزیوں کی مہنگائی کے عروج اور غریبوں کے دستر خوان کے زوال کا سارا فلسفہ سمجھ آ جائے گا۔اور ” گو نواز گو“ کے نعروں کا مطلب بھی........ جو لوگ عمران یا قادری کے کہنے پر نہیں مہنگائی بڑھنے پر لگا رہے ہیں۔٭....٭....٭....٭