منگل ‘ 1435ھ ‘ 29 ؍ جولائی 2014ء
محترم مجید نظامی 1950ء سے 1955ء تک نوائے وقت کا معروف کالم ’’سرراہے‘‘ باقاعدگی سے لکھتے رہے جو ان کی حسِ مزاح اور فکاہیہ کالم میں پختگی کا بیّن ثبوت ہے۔ قارئیں کی دلچسپی کیلئے آج سے محترم مجید نظامی کے تحریر کردہ سرراہے کے منتخب ٹکڑے پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے ۔ (ایڈیٹر)
دستور ساز اسمبلی میں پنجاب کی سات نشستیں پُر کرنے کے مسئلہ پر جو بحث ہوئی اس میں آنریبل لیاقت علی تو لال پیلے ہوئے ہی تھے نائب وزیر داخلہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے بھی نتھنے پھول گئے اور آنکھوں سے شرارے برسنے لگے ؎
بدھو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں
گو مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
آپ حیران ہوں گے یہ ڈاکٹر صاحب ہیں کون؟ پاکستان بننے سے پہلے کبھی ان کا نام سُنا تھا نہ پاکستان بننے کے بعد، پہلی مرتبہ حضور نائب وزیر داخلہ کی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔ سو سُنئے صاحب یہ وہی ڈاکٹر قریشی ہیں جن سے پچھلے دنوں اعلیٰ حضرت سرکار والابتار امیر بہاولپور ’’مسرور بہ ملاقات‘‘ ہوئے تھے ع
یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے!
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی دہلی کے ایک کالج میں تاریخ کے پروفیسر تھے بعد ازاں دہلی یونیورسٹی میں ریڈر ہو گئے۔ آزادی کے بعد لاہور تشریف لائے اور پنجاب یونیورسٹی میں مقرر ہوئے۔ آنریبل لیاقت علی کی نظر جوہر شناس جو ان پر پڑی تو نائب وزیر داخلہ کی حیثیت سے کراچی پہنچ گئے ع
پسلی پھڑک اُٹھی نگہ انتخاب کی!
ڈاکٹر صاحب بے چارے کی ساری عمر کالج میں لڑکوں کو پڑھاتے گزری ہے سیاست کی خارزار وادی میں کبھی قدم نہیں رکھا تھا اور اب بھی سیاسی سوجھ بوجھ کا یہ عالم ہے کہ آنریبل خواجہ شہاب الدین کی عدم موجودگی میں سیفٹی آرڈیننس کے حق میں بیان دیتے ہوئے اس کیلئے سب سے بڑی دلیلِ جواز ڈاکٹر صاحب نے یہ دی تھی کہ اس قانون کا مقصد سیاسی نہیں ہے۔ حکومت تو اس سے ان مجرموں کے سلسہ میں کام لینا چاہتی ہے جو ایک ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ بھاگ جانا چاہتے ہیں۔ اس پر ایک ظریف نے یہ لکھا تھا کہ سیفٹی آرڈیننس کی شانِ نزول سیاسی نہیں حکومت اسکی مدد سے سائیکل چور پکڑنا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر قریشی نے پنجاب کے ممبروں کو بڑے غضب ناک لہجہ میں یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ دستور ساز اسمبلی کی ممبری سے مستعفی ہو کر نئے آئین کے ماتحت دوبارہ انتخاب لڑیں! ڈاکٹر صاحب کا یہ چیلنج بھی دراصل ان کی سادگی اور شرافت کی دلیل ہے۔ سیاست کی پیچیدگیوں سے آگاہ ہوتے تو کبھی ایسی بات منہ سے نہ نکالتے کیونکہ انتخاب خواہ نئے آئین کے ماتخت ہو خواہ پرانے آئین کے ماتحت ڈاکٹر قریشی تو دستور ساز اسمبلی چھوڑ کسی میونسپل کمیٹی کے ممبر بھی نہیں بن سکتے!
ڈاکٹر صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ آج ان کے نائب وزیر ہونے کی وجہ کیا ہے؟ اسی ضمن میں دوسری بات اگر انہیں نہ معلوم ہو تو ہم عرض کر دیں اور وہ یہ ہے کہ نئے انتخاب کے بعد وہ نائب وزیر تو کجا اسمبلی کے معمولی ممبر بھی نہیں بن سکیں گے! (مجید نظامی)
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
پھر وہی ہُوا جس کا ڈر تھا، حسبِ معمول اس برس بھی پشاور کی قاسم مسجد میں مولانا پوپلزئی نے ’’نواں چن چڑھایا‘‘ اور رات گئے اپنی غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کی طرف عید کا چاند نظر آنے کا اعلان کر دیا۔ ایک بار پھر ہم پورے ملک میں ایک ہی روز عید منانے کی خوشی سے محروم رہ گئے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم نے بھی جن کی پارٹی صوبہ خیبر پی کے میں حکومت میں شامل ہے اپنی جماعت کی طرف سے امداد بانٹنے کی تقریب کو عید منانے تقریب میں تبدیل کر کے متاثرین کو خوش کرنے کیلئے ناصرف ان کے ساتھ عید منانے کا اعلان بلکہ نماز عید کی امامت بھی کرائی جبکہ ان کی جماعت نے سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ عید منانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ دو رُخی پالیسی کیا ہے اس کا ہمیں یا پوری قوم کو آج تک علم نہیں ہو سکا۔مولانا پوپلزئی تو ہمیشہ مرغ کی ایک ٹانگ کی عملی مثال بننا پسند کرتے ہیں اور اپنا چن چڑھا کے دم لیتے ہیں اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ غیر سرکاری خود ساختہ رویت ہلال کمیٹیوں کی طرف سے چاند کے اعلان پر پاپندی لگائے اور ایسا چاند نکالنے والوں کو حفاظتی طور پر 28ویں شب رمضان سے ہی بے دست و پا یعنی موبائل فون اور ٹیلی فون سہولتوں سے محروم کر کے احتراماً چاند نظر آنے تک حوالات میں یا گھر میں بند رکھا جائے تاکہ شوال کا چاند بے خوف و خطر وقت مقررہ پر ہی نظر آئے اور مولانا پوپلزئی جیسے حضرات زبردستی اسے نکالنے سے باز رہیں۔ اس طرح پورے ملک میں لوگ اطمینان سے ایک ہی روز عیدالفطر منا سکیں گے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
تاجر‘ دکاندار اور ٹرانسپورٹر عید پر عوام کی کھال اتارنے لگے!
ابھی عوام حکومت اور دکانداروں کے فکس شدہ رمضان پیکج سے جان نہ چھڑا پائے تھے کہ دکانداروں نے عید پیکج جاری کر دیا جس کے بعد لوگ گلیوں اور بازاروں میں سبزیوں کی تلاش میں خوار ہو رہے ہیں، جو اگر دستیاب بھی ہیں تو عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ چونکہ عید پر تین روز دکانیں بند رہیں گی اس لئے دکانداروں نے ساری کسر عید سے قبل ہی نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور لوگوں کو عید سے زیادہ کچن آئٹمز کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ اس کام میں ٹرانسپورٹر بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے، انہوں نے دل کھول کر دوسرے شہروں میں عید منانے کیلئے جانیوالے مسافروں کی کھال اتاری، ڈبل کرایہ وصول کیا۔ گھر جانے کیلئے بے تاب مسافر خاموشی سے ان قصابوں کے ہاتھوں اپنی کھالیں اتروانے پر مجبور ہیں۔ سارے رمضان حکومت عوام کے لُٹنے کا تماشہ خاموشی سے دیکھتی رہی اب بھی وہی بے حسی کا عالم ہے ۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی تجارتی بازار کا چکر لگا کر ردی سی ردی چیز بھی جو شاید عام دنوں میں کوئی خریدنا پسند نہ کرے دوگنی قیمت پر لوٹ ’’سیل‘‘ کے نام پر بک رہی ہے اور لوگوں کو لوٹنے کیلئے لوٹ سیل کا بورڈ لگادیا جاتا ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭