جمعۃ المبارک‘ 5 صفرالمظفر 1436ھ‘ 28 نومبر 2014ء
بنگلہ دیش نے پاکستان کی حمایت کرنے والوں کے جنازوں پر پابندی عائد کر دی!
حیرت ہے جو کام کرنے کے ہیں ان پر تو بنگلہ دیش کی حکومت کی نظر کرم نہیں ہوتی اور جو کام نہیں کرنے والے ان پر دھڑا دھڑا عمل ہو رہا ہے۔ اب اگر پابندی لگانی ہی تھی تو عدالت کی طرف سے دی جانے والی ان بے انصافی کے تحت پھانسی کی سزا ملنے پر لگائی جاتی۔ ایسا کچھ تو کیا نہیں اور پابندی جنازوں میں شرکت پر لگا دی۔
اب حسینہ واجد کو کون سمجھائے کہ بی بی جب پھانسیاں لگیں گی تو جنازے ہی اٹھیں گے جس میں ہر مسلمان چاہے وہ کسی بھی سیاسی نظریہ سے وابستہ ہو شرکت ضرور کرے گا یہ اس کا مذہبی فریضہ ہے کہ دوسرے مسلمان بھائی کے جنازے کو کاندھا دے یا اس میں شرکت کرے۔ اب اس میں شرکت سے روکنا تو سراسر ان کے دینی امور میں مداخلت کا معاملہ بن جائے گا۔ پہلے ہی کیا مذہبی جماعتوں اور بنگلہ دیش کی حکومت میں کم ٹھنی ہوئی ہے کہ اب یہ نیا تنازع حسینہ واجد کے گلے میں سوئمبر کا ہار بنا کر ڈالا جا رہا ہے۔ اور یہ پاکستان سے محبت کوئی اتنا بڑا جرم نہیں کہ اسے پھانسی کی وجہ بنایا جائے۔ اگر بُرا نہ لگے تو ذرا بنگلہ دیش میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچ میں تماشائیوں کا موڈ ہی دیکھ لیں وہ بنگلہ دیشی پابندیوں کے باوجود کس طرح پاکستان ٹیم کی ایک ایک شاٹ پر ایک ایک گیند پر اور پھر فتح پر خوشیاں مناتے، ناچتے اور نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ اور شکست پر افسردہ ہو کر روتے ہیں۔ کیا یہ مسرت اور مشترکہ دکھ کی کیفیت جو ان کے دلوں میں بستی ہے۔ پھانسی یا قید کے خوف سے کوئی حکومت ختم کر سکتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
طلحہ محمود مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے لئے یروشلم جائیں۔ حاجی عدیل کے ریمارکس پر جے یو آئی کے سینیٹر گرمی کھا گئے۔ لو اب ایسے اسلام آباد کے سرد موسم میں گرمی کون سا نقصان دیتی ہے۔ الٹا یہ تو خون کی روانی بڑھاتی ہے۔ لوگ خشک میوے کھا کر سوپ پی کر بھی تو یہی گرمی بدن میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اے این پی کے حاجی عدیل بھی تو بڑے وہ ہیں موقع بے موقع ایسا بیان داغ دیتے ہیں کہ فریق ثانی کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ جے یو آئی کے سینیٹر طلحہ محمود یہ وار برداشت کر گئے اگر وہ جوابی حملے میں یروشلم جانے کی بجائے اپنا مذہبی فریضہ سینٹ میں ہی ادا کرنے کے درپے ہو جاتے تو حاجی عدیل کو جان بچانا مشکل ہو جاتی۔ کیا حاجی عدیل کو علم نہیں کہ مذہبی فریضے کی ادائیگی کی تلقین یہ تمام مذہبی رہنما عوام الناس کو کرتے ہیں۔ یہ خود ان کے لئے نہیں ہوتی۔ خود اگر یہ بھی مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لئے جان و مال کی قربانیاں دینے لگیں تو باقی کیا رہ جائے گا۔ ان کے پلے ان کی جماعتیں ویران ہوٹل کی طرح گاہکوں کا منہ تکتی رہ جائیں گے۔ یہ واعظان خوش گلوکی بیان بازی ہی تو لوگوں کا ہجوم اکٹھا کرتی ہے۔ اب اگر یہ نہ رہے تو کون یہاں آئے گا۔ ویسے سچی بات یہ ہے کہ ان گفتار کے غازیوں سے یہ امید رکھنا ہی عبث ہے کہ یہ کردار کے غازی بنیں اقبال نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا … ؎
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا غازی تو یہ بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
اب ان تنومند ارب پتی واعظان کرام نے یروشلم کیا جانا جہاں موت سڑکوں اور بازاروں میں رقص کرتی ہے۔ اور شہادت پھولوں کے گجرے لئے اپنے مجاہدوں کا استقبال کرتی ہے۔ انکی قسمت میں یہ سعادت کہاں۔ یہ تو بس پراڈو اور لینڈ کروزروں میں بیٹھ کر جہاد کانفرنسیں کرکے دل خوش کر لیتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
شیخ رشید متروکہ وقف املاک بورڈ کی زمین پر قابض ہیں۔ صدیق الفاروق۔ ابھی تک ہم سمجھتے تھے کہ شیخ رشید کے زیر تصرف صرف لال حویلی اور وہ چند ایک زمینیں ہیں جن میں وہ کسی دور میں کشمیری مجاہدین سے ٹریننگ کے نام پر دروغ برگردن راوی کھیتی باڑی کرواتے تھے۔ اب یہ انکشاف بھی خاصہ دلچسپ ہے کہ شیخ جی متروک املاک بورڈ کی اربوں کی اراضی پر دھرنے دیئے بیٹھے ہیں اور کسی کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی۔ اب یہ پیپلز پارٹی والے شرم کے مارے کہیں ڈوب جائیں تو اچھا ہے۔ کہ ان کے دور حکومت میں آصف ہاشمی چیئرمین متروکہ املاک نے وہ ادھم مچائے رکھا کہ دان پن اور بخشش کے شوق اور لکھ داتا کہلوانے کے چکر میں اربوں کھربوں کا چونا لگا دیا محکمہ کو اور آج کل فرار ہو کر بیرون ملک عیش کر رہے ہیں۔ اب زرداری کے اس نورتن کو بھی اپنے دور میں شیخ صاحب کی زیر قبضہ اراضی نظر نہیں آئی ورنہ زرداری شاید اپنی مرحومہ بیگم کی توہین کا بدلہ باآسانی شیخ رشید کو رسوا کر کے لے لیتے یوں پرانا حساب چکتا ہوتا۔ اب صدیق الفاروق کو دیکھ لیں کس پھرتی سے انہوں نے شیخ رشید کی زبان کو لگام ڈالنے کیلئے باگ تیار کر لی اور منوں مٹی تلے دبی یہ فائل یا کیس نکال لائے۔ اب دیکھنا ہے یہ کیس جلتی پر مٹی کا کام دیتا ہے یا پٹرول کا کیوں کہ 30 نومبر کے جلسے کے حوالے سے شیخ رشید آج کل بہت گرم ہیں بلکہ آتش بجاں ہیں۔ وہ دبتے نہیں بھڑکتے ہیں اس کا مظاہرہ آج یا کل وہ میڈیا کے سامنے خوب کریں گے۔ حالات و آثار بتاتے ہیں کہ وہ خاموش نہیںرہیں گے۔ بس اب اگر صدیق الفاروق کہیں سے شیخ رشید کی کسی خفیہ شادی کا راز فاش کر دیں اور کسی نکاح نامے کی کوئی فوٹو کاپی ڈھونڈ نکالیں تو امید ہے کہ 30 نومبر سے قبل ہی پاکستانی سیاست میں اس شیخو کی شیخیاں دیکھنے والی ہوں گی۔