منگل ‘ 11 شوال ‘ 1436ھ ‘ 28؍ جولائی 2015ء
موبائل فون کارڈ پر کٹوتی میں اضافہ سے عوام اور تجارتی حلقوں میں اشتعال۔
پہلے تو موبائل کمپنیوں کے ساتھ مل کر دونوں ہاتھوں سے اپنا کمشن بٹورنے کے چکر میں حکمرانوں نے پوری قوم کو اسی عادت بد میں مبتلا کیا۔ جب دیکھا کہ اب اس نشئی قوم کا موبائل کے بغیر گزارہ نہیں تو یکے بعد دیگرے موبائل فون کارڈز پر کٹوتی کی شرح میں اس طرح اضافہ کرنا شروع کر دیا جس طرح منشیات فروش پہلے کم قیمت پر لوگوں کو نشہ فراہم کرتے ہیں جب وہ عادی ہو جائیں تو قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ اب جس نے نشہ کرنا ہے یا موبائل فون استعمال کرنا ہے اس نے تو کارڈز خریدنے ہی ہیں کیونکہ کارڈز کے بغیر خالی موبائل فون کس کام کا۔
سننے میں اب یہ آ رہا ہے کہ حکومت موبائل کارڈ پر جو جگا ٹیکس لے رہی ہے اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے تو لگتا ہے اب 100 کے کارڈ پر صرف 50 روپے کا ہی بیلنس ملا کرے گا جس پہ لوگ سراپا احتجاج ہیں اور حکومت کٹوتی میں مزید اضافہ کا فیصلہ واپس لینے پر غور کر رہی ہے۔ دیکھنا ہے اب یہ اضافہ واپس ہوتا ہے یا لوگ رابطے کم کرتے ہیں۔ اس وقت جسے دیکھو جہاں دیکھو موبائل ہاتھ میں پکڑے یا کان سے لگائے اس طرح مصروف نظر آتا ہے کہ ہمیں ’’آمدنی ٹکے کی نہیں اور سر کھجانے کو فرصت نہیں‘‘ والی بات درست محسوس ہوتی ہے۔
کام ہو یا نہ ہو آمدنی ہو یا نہ ہو موبائل ضرور ہر ایک کے ہاتھ میں ملتا ہے۔ اور وہ بھی صرف گپ شپ کے لئے شاید ہمارے نزدیک اس موبائل فون کا وجود ہی گپ شپ کے لئے ہے اور ہماری اسی کمزوری کی وجہ سے اب 100 کے لوڈ پر جب آدھی رقم کے قریب کٹوتی ہو گی تو ہمارے ہوش خود بخود ٹھکانے آجائیں گے۔
٭…٭…٭…٭
کشمیری نہ صرف بہادر بلکہ انسان دوست بھی ہیں، ہندو یاتریوں کا اعتراف۔
شاید انہی خوبیوں کی بنا پر بھارتی افواج ان بہادر اور انسان دوست کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ اگر بھارتی حکمران امرناتھ یاترا پر آئے ان ہندوئوں کے اس اعتراف پر ہی توجہ دیں اور اپنے ظالمانہ رویئے پر غور کریں تو شاید انہیں شرمندگی اور ندامت ہو مگر اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔
اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ بھارت سے آئے یاتری امرناتھ کے لئے کشمیر آئے ہوئے ہیں اوپر سے مون سون نے بھی خوب رنگ جمایا ہوا ہے۔ گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی لگتا ہے آسمان کا بند ٹوٹ گیا ہے اور پانی شر شر بہہ رہا ہے۔
گاندربل میں غضب کی چال چلنے والے سندھو نالے کے وسیع پاٹ میں یاتریوں کے کیمپ بھی اس بلائے ناگہانی یعنی سیلاب کی لپیٹ میں آئے تو وہاں کے قریبی فوجی کیمپ میں موجود انکے اپنے فوجیوں نے بھی جان بچانے میں عافیت جانی اور سیلاب بلاخیز سے بچنے کیلئے آرمی اور پولیس کے جوان وہاں سے بھاگ گئے۔ اس دوران اردگرد کی آبادیوں کے مسلمانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یاتریوں کو ان کے سامان کو ڈوبنے سے بچایا۔
یہ حکومت ہند اور کشمیر کی کٹھ پتلی انتظامیہ کیلئے بذات خود ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ یہی انسان دوستی اور بہادری کشمیریوں کا شیوہ رہی ہے مگر ظالم ڈوگرہ حکمران یا ہندوستان حکومت نے ہمیشہ ظلم و تشدد سے ان خوبیوں کو دبانے کی مٹانے کی کوشش کی مگر آج تک ناکام ہی ہوتے آئے ہیں۔ کیونکہ بقول اقبال … ؎
جس خاک کے خمیر میں ہو آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند
٭…٭…٭…٭
عید کے بعد اتوار بازاروں میں خریداروں کا رش، قیمتوں میں کمی نہ آسکی۔
رمضان المبارک کے بعد عید مبارک بھی رخصت ہو چکی مگر ہمارے ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیا کی ملی بھگت سے جن اشیا کی قیمتیں اندھا دھند بڑھی تھیں وہ آنکھیں کھول کر بھی نیچے آنے کا نام نہیں لے رہیں۔
رمضان سے ہی عوام بے وقوفوں کی طرح انتظار میں تھے کہ عید کے بعد قیمتوں میں کمی آئے گی مگر ایسا نہیں ہوا اور گزشتہ روز اتوار بازاروں میں عوام کی خواری اور منافع خوروں کی عیاری کے سامنے حکمرانوں کی بظاہر بیداری بھی کسی کام نہ آ سکی۔ گلی سڑی سبزیاں خراب شدہ پھل، گراں نرخوں پر غریبوں کا منہ چڑا رہے تھے۔
پرائس کنٹرول کمیٹیاں حسب معمول آنکھ بند کئے سب اچھا کی رپورٹ بھجوانے کے دھندے میں ماہر ہیں اور سادہ لوح حکمران ان رپورٹوں کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کانوں میں روئی رکھی ہوئی ہے اور انہیں عوام کی آہ زاری بھی سنائی نہیں دیتی۔ آنکھوں سے اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ شاید میٹرو بس اور بجلی گھروں کے منصوبے ہیں یا غیر ملکی سرمایہ کاروں سے ہر منصوبے پر حاصل ہونے والے کمیشن کی سٹیٹمنٹ۔
ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹی والوں کو بھی حکمرانوں کے ان مشاغل کا پتہ ہے اس لئے وہ بھی ’’کھا لے پی لے موج اڑا‘‘ والی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اچھے گوشت سبزیوں اور پھلوں سے اپنے گھروں کے فریج اور ڈیپ فریزر بھرے رکھنے اور منتھلیاں وصول کرنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ ویسے بھی اس وقت گرانی کے اس سیلاب کے علاوہ حقیقی سیلاب نے بھی آفت مچا رکھی ہے۔ دعا ہے خدا اس مفلوک الحال قوم کو ان دونوں آفتوں سے محفوظ رکھے جنہوں نے عوام کی رہی سہی جان بھی نکالنے کا اہتمام کر رکھا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭