جمعة المبارک 1438 ھ‘ 28 اپریل 2017ئ
گو نواز گو دوسرا قومی ترانہ ہے آج اسلام آباد میں پڑھیں گے: عمران خان
خدا خیر کرے ابھی تک تو ہمارے بڑے بڑے سیاستدانوں کو اپنا قومی ترانہ زبانی یاد نہیں۔ یہ دوسرا کہاں سے آن ٹپکا۔ یقین نہیں آتا تو کبھی لائن لگا کر امتحان لے لیں۔ سب کو کہیں کہ سنا کر دکھائیں۔ لکھنا تو دور کی بات ہے۔ وہ تو زبانی بھی سنا نہیں سکیں گے۔ یہی حال بیچارے عوام کا بھی ہے اب اس ترانے کے بعد یہ دوسرا ترانہ خان صاحب نے کہاں سے ایجاد کر لیا۔اسے ترانے کا نام کس طرح دے دیا۔ یہ ملی نغمہ بھی کہلانے کا حقدار نہیں۔ یہ تو ہر ایک پر فِٹ آتا ہے۔ کہیں گو نواز گو گونجتا ہے تو کہیں رو عمران رو بج رہا ہوتا ہے۔ خان صاحب جو چاہیں کر لیں انہیں روکنا کس نے ہے۔
نئے پاکستان سے لیکر نئے ترانے کی تخلیق تک ان کے ہاتھ کھلے ہیں جو چاہیں کریں۔ لوگوں کا کام انہیں دیکھنا ہے خان صاحب کو پرواہ نہیں کون کیا کہتا ہے۔ اب آج اسلام آباد میں خان صاحب کے میوزیکل پروگرام میں دیکھنا ہے تحریک انصاف کا قومی ترانہ کس طرح گونجتا ہے۔ ہمیں تو بس یہی عرض کرنی ہے کہ جو چاہیں کریں کم از کم ترانے کو رہنے دیں۔ اس کو یوں مذاق نہ بنائیں قومی شعائر کا یوں تمسخر اڑانا کسی کو زیب نہیں دیتا۔ آپ تو بزعم خود بڑے قومی رہنما ہیں۔
٭٭٭٭٭
نیپرا نے بجلی کی قیمت میں 4روپے 35پیسے فی یونٹ کمی کی منظوری دے دی
بہت پہلے مرزا رسوا نے امراﺅ جان ادا لکھی۔ کمال کا ناول ہے۔ بے مثال لاجواب جملے اور اشعار آج بھی پڑھنے والوں کو ازبر ہیں۔ مرزا نے اس ناول میں ایک شعر لکھا ہے جو آج نیپرا کی اس مہربانی پر بے ساختہ یاد آ رہا وہ ہے....
آج کل ان کو بہت ہے میری خاطر منظور
یا میری یا میرے دشمن کی قضا آئی ہے
اول تو حکومت کی طرف سے لوڈشیڈنگ میں کمی کی پے در پے خوشخبریوں سے عوام کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی تھی۔ کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ اب نیپرا والوں نے خلاف توقع گرمی کے آغاز پر جب بجلی کے میٹر عوام کی سانسوں سے زیادہ تیز چلنے لگتے ہیں۔ بجلی کی قیمت میں کمی کا جو مژدہ سنایا ہے وہ سن کر تو عوام شادی مرگ والی کیفیت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
حکومت کے اس طرح کے اچھے فیصلے ہمیشہ عوام میں پذیرائی پاتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہیں اس کے بعد قیمت میں چڑھاﺅ کا عمل بھی شروع نہ ہو جائے۔ جیسا پٹرول کے ساتھ ہورہا ہے۔ بہرحال اس موسم گرما میں اگر حکومت بجلی کی فراہمی میں بہتر اور ریٹ میں کمی لانے میں اسی طرح کامیاب رہی تو اگلے الیکشن میں عوام اپنے ووٹوں سے حکمرانوںکی کامیابی بھی یقینی بنادیں گے ۔آزمائش شرط ہے۔
٭٭٭٭٭٭
پاکستانیوں کی اکثریت موسمیاتی تبدیلیوں سے بے فکر ہے: سروے رپورٹ
تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے جو قوم سیاسی تبدیلیوں کی پریشانی میں سارا سال بلکہ سچ کہیں تو گزشتہ 8 سالوں سے مبتلا ہو۔ اسے بھلا موسمیاتی تبدیلیوں کی کیا فکر ہو گی۔ پاکستانی قوم تو موسمی تبدیلی سے صرف اس حد تک آگہی رکھتی ہے کہ موسم سرما میں گیس نہیں ہوتی اور موسم گرما میں بجلی نہیں ہوتی۔ یا پھر زیادہ سے زیادہ مون سون میں سیلابی صورتحال انہیں تیسری موسمیاتی تبدیلی کا پتہ دیتی ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا۔
قطبین میں گلیشئر پگھلیں یا پانی کی کمی سے صحرا سرسبز زمینوں کو نگلیں، یہ سب سوچنے کی فرصت ان کو کہاں۔ جو قوم دھڑا دھڑ جنگلات کاٹ رہی ہو، پانی ضائع کرتی ہو، آلودگی پھیلانے میں پہلی پوزیشن رکھتی ہو اسے کیا پتہ موسمیاتی تبدیلیاں کس چڑیا کا نام ہے۔ ہماری حکومتیں بھی اس بارے میں عوامی شعور بیدار کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ وہ بھی صرف کمانے کے موسم کے انتظار میں ہوتی ہیں۔
باقی سارے موسم اس کے لئے بیکار ہوتے ہیں۔ الیکشن کا موسم ان کے لیے صرف اتنی کشش رکھتا ہے کہ اس موسم میں وہ نوٹوں کی فصل بوتے ہیں جو باقی 5 برس میں انہوںنے کاٹنی ہوتی ہے۔
اس وقت پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر دس ممالک میں سے ایک ہے۔ مگر کسی کو فکر نہیں شاید ہمارے حکمران اور عوام خود کو اس کرہ ارض کا حصہ مانتے ہی نہیں۔ ورنہ اس قدر لاپرواہ نہ ہوتے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم گلوبل وارمنگ پر توجہ دیںورنہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات بہت جلد ہمیں صومالیہ، ایتھوپیا یا سوڈان بنا دیں گے۔
٭٭٭٭٭
دو ارکان پارلیمنٹ افغانی ہیں شہریت اور رکنیت منسوخ کی جائے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہری کی درخواست
رکن قومی اسمبلی بسم اللہ جان اور سنیٹر حیات اللہ جان ان دونوں کی جان ہمارے پیارے پاکستان پر قربان۔ فی الحال تو نادرا والے ان دونوں پر قربان ہوں جنہوں نے انہیں افغانی ہونے کے باوجود نجانے کتنی رشوت اور کس کس نیک نام کی ضمانت اور سفارش پر پاکستانی بنا کر وہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ آج پوری قوم کا خون اس پر کھول رہا ہے۔ یہ رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر ظاہر ہے عام غریب مہاجر نہیں مالدار افغانی ہیں۔ جن کا سرمایہ اب خدا جانے منشیات کی سمگلنگ کا مال حلال ہے یا اسلحہ کی فروخت کے جائز کاروبار کا کرشمہ ہے۔ وجہ جو بھی ہو جس پاکستانی جماعت سے ان کا تعلق اس کا بھی شجرہ چیک کیا جائے کہ اس نے کس طرح ان دو غیر ملکیوں کو صرف بھاری رقوم کے عوض ٹکٹ دی‘ نہ ماضی دیکھا نہ حال بس صرف مال دیکھا۔
امید ہے اب عدالت ان غیر ملکیوں کو شہریت اور رکنیت سے محروم کرکے انصاف کا بول بالا کرے گی۔ صرف یہی نہیں خیبر پی کے اور بلوچستان کی اسمبلی میں بھی چند ایسے ہی غیر ملکی پاکستانی بن کر اقتدار کا لطف اٹھا رہے ہیں ان کی بھی اصلیت ظاہر کی جائے یہ غیر ملکی بھلا کب پاکستان کے خیر خواہ ہو سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭