جمعۃالمبارک‘19 ؍ شعبان المعظم 1437ھ‘ 27 ؍ مئی‘ 2016ء
پی آئی اے کے طیارے میں چھپائی گئی 30 کروڑ روپے مالیت کی ہیروئن کراچی میں پکڑی گئی
کام کامعیار تو تباہ ہوچکا ہی تھا، اب لے دے کر ایک نام کا بھرم رہ گیا، وہ بھی ہماری قومی ایئرلائن کے کارکن کہہ لیں یا ملازم، خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ طیاروں کے سامان، کھانے پینے کی چیزوں میں ہیرا پھیری، دفتری اشیاء کی چوری چکاری تو گھریلو معاملہ ہے، یہاں تک ہی محدود رہتا ہے۔ گھر کی بات گھر میں ہی رہتی ہے۔ سرزنش ہو یا انکوائری حرام خور لوگ مل ملا کر معاملہ دبا دیتے ہیں۔ مگر یہ جدہ سعودی عرب کے لئے طیارے میں ایندھن کی طرح جو ٹائیلز میں 30 کروڑ روپے مالیت کی 27 کلو ہیروئن بھری گئی، کیا اس کام میں ملوث لوگوں کو ذرا بھر بھی قوم کی عزت و وقار کا خیال نہیں آیا۔ لگتا ہے یہ لوگ عرصہ دراز سے یہ دھندا کررہے ہیںجبھی تو اتنے دلیر ہیں ورنہ کون نہیں جانتا سعودی عرب میں منشیات فروشوں کا سر قلم ہوتا ہے۔ اب اگر یہ طیارہ جدہ میں پکڑا جاتا تو پورے عملے کا سر قلم تو ہونا ہی تھا۔ مسئلہ اس بیچارے طیارے کا تھا اگر اس کے سر قلم ہونے کا حکم بھی آجاتا تو کیا ہوتا۔ یہ تو بے گناہ مارا جاتا۔پہلے ہی کون سے طیارے بچ گئے ہیں ہماری قومی ایئر لائن کے پاس کہ ایک اور طیارہ ضائع ہو جاتا۔ شاید اس کے بعد پی آئی اے کا سعودی عرب میں آنا جانا بھی بند کر دیا جاتا جس کا نقصان الگ ہوتا۔ اب کوئی ہے جو پی آئی اے کے نام کو بٹہ لگانے والے ان افراد الٹا لٹکا دے۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
پشاور: مردانہ وارڈ یا زنانہ وارڈ کے چکر میں زخمی خواجہ سرا ہسپتال میں دم توڑ گیا
حادثے یا واردات میں زخمی کی جنس کے تعین سے زیادہ اہم اس کی جان بچانا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں پشاور میں ڈاکٹروں کی طرف سے شدید زخمی خواجہ سرا کو جنس کی بنیاد پر مردانہ وارڈ یا زنانہ وارڈ میں جگہ دینے کا مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کی طرح اتنا طویل ہوگیا کہ زخمی خواجہ سرا کی جان چلی گئی۔ مرد ہو یا عورت یا خواجہ سرا اس تفریق میں پڑنے سے زیادہ کسی انسان کی جان بچانا ڈاکٹروں کے لئے اہم ہوتا ہے مگر ہمارے یہ زندہ دل ڈاکٹر فائرنگ سے شدید زخمی اس جاں بہ لب مریض سے جو درد سے تڑپ رہا تھا، مخول اور ٹھٹھول کرتے رہے کہ ہمارے ہاں تقریب میں ناچنے کے کتنے پیسے لوگے۔ واہ کیا زندہ دل ہیں ہمارے یہ ڈاکٹر جن کا دعویٰ ہے کہ وہ مسیحا ہیں۔ جبکہ حقیقت میں یہ جلاد کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ہسپتال میں بڑی مشکل سے اس خواجہ سرا کو مردانہ وارڈ میں ٹائلٹ کے پاس بیڈ ملا کیونکہ باقی مردانہ مریضوں کو اس کے ساتھ اپنا بیڈ منظور نہیں تھا۔ شاید ان کی مردانگی پر حرف آتا تھا۔یہ ہے ہمارا اخلاقی اور معاشرتی رویہ، کتنے بے حس اور سنگدل ہوچکے ہیں ہم۔ کسی کو مرتا دیکھ کر بھی ہمارا دل نہیں پسیجتا۔ سنتے تھے ہمارے ہاں انسانیت مر گئی آج لگتا ہے واقعی مرگئی ہے…
…٭…٭…٭…٭…٭…
لندن میں حسن نواز کی رہائش گاہ کے باہر تحریک انصاف کا مظاہرہ
چلیں اب یہ نیا سلسلہ شروع ہوگیا، بیرون ملک اپنے ملک کی نیک نامی میں اضافے کا۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے عمران کی آمد پر جمائما کے گھر کے باہر مظاہرہ کیا تو اب جواب میں تحریک انصاف والوں نے نواز شریف کی آمد پر حسن نواز کے گھر کے باہر مظاہرہ کرکے حساب بیباق کرنے کی کوشش کی ہے۔ لندن میں مقیم پاکستانی پہلے ہی کئی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہر ایک پارٹی کبھی اپنے مطالبات کے حق میں اور کبھی اپنے مخالف کے خلاف مظاہروں کا ڈرامہ رچاتی رہتی ہے۔ مطالبات اور مخالفت کا تعلق پاکستان سے ہے اور مظاہرے لندن میں ہو رہے ہیں۔اس سے سوائے جگ ہنسائی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ مگر ہم لوگ شاید کچھ زیادہ ہی بے باک ہوچکے ہیں۔ سوچتے ہی نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ کیا پاکستان میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی جگہ کم ہے یا یہاں تسلی نہیں ہوتی۔ دیارِغیر میں اکثر پاکستانی روزی روٹی کمانے گئے ہوتے ہیں اور اپنے اچھے طرزعمل کی وجہ سے ملک کی نیک نامی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ مگر یہ چند زر خرید لوگ اپنے طرزعمل سے ان کے کئے کرائے پر بھی پانی پھیرتے نظر آتے ہیں۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
جماعت اسلامی کے ٹرین مارچ میں سراج الحق انجن میں جا بیٹھے
رکشہ مارچ میں مولانا رکشہ چلاتے نظر آتے ہیں، رکشہ والے کے ساتھ بیٹھ ،کر ریڑھے تانگے مارچ میں کوچوان کے ساتھ ریڑھا یا تانگہ چلاتے ہیں، لاہور کے جلسے کے انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے اپنے کارکن کے ساتھ موٹر سائیکل کی پچھلی نشست پر بیٹھ کر مینار پاکستان جا پہنچے اور اب ٹرین مارچ شروع کیا تو اس میں بھلا اپنی روایات کیوں نہ برقرار رکھتے۔ پنڈی سے نکلے تو ٹرین میںتھے مگر ہر سٹیشن پر انجن پر چڑھ کر مظاہرین یا استقبالیہ ہجوم سے خطاب کرتے رہے۔ مگر کہتے ہیں ناں شوق دا کوئی مل نئیں، یہاں بھی جناب کو ڈرائیونگ کا شوق چرایا تو جھٹ انجن میں جاکر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اب خدا جانے بیچارہ ڈرائیور کہاں گیا ہوگا۔ گاڑی کس نے چلائی ہوگی۔ ضروری تو نہیں جورکشہ چلا سکتا ہو، ٹرین بھی چلا سکے۔ کل اگر ہوائی مارچ ہوا اور مولانا جہاز بھی خود چلانے کے شوق میں کاک پٹ میں گھس گئے تو کیا ہوگا۔ ویسے تو یہ مارچ ہے کرپشن کے خلاف مگر اسے تو تفریحی ٹور بنا دیا گیا ہے۔ اب تک ہر سٹیشن پر تقریری مقابلے کے سوا اور بھلا کیا نتیجہ سامنے آسکا ہے۔ یہ کام تو مولانا میڈیا کے ذریعے پہلے ہی اچھے طریقے سے انجام دے رہے تھے، پھر اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت۔ اس گرمی میں اس مارچ کی وجہ سے ریلوے کے مسافروں کو جو کوفت سٹیشنوں پر اٹھانا پڑ رہی ہے، کیا اس مارچ کے بعد وہ اس کی حمایت کریں گے…
…٭…٭…٭…٭…٭…