پیر ‘ 21 رمضان المبارک1437ھ‘ 27 جون 2016ء
بھارت کے این ایس جی ممبر بننے یا نہ بننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا : سری نواسن
کھسیانی بلی کھمبا نوچے والا محاورہ سری نواسن کے اس بیان پر فٹ آتا ہے اگر فرق نہیں پڑتاتھا تو پھر یہ دنیا بھر میں سشما سوراج این ایس جی ممبر ملکوں کے پھیرے کیوں لگا رہی تھیں اور ان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے منتیں کیوں کر رہی تھیں۔ کہاں کہاں کی خاک نہیں چھانی انہوں نے کس کس کے پاﺅں نہیں پڑی ہوں گی وہ کہ کسی طرح بھارت این ایس جی کا ممبر بن جائے اور یہ ممالک بھارت کے حق میں ووٹ دیں۔ مگر افسوس پاکستان اور چین نے بھارتی خواہشات کو حقیقت میں بدلنے نہیں دیا اب فرق پڑنے یا نہ پڑنے کی بات کرنا عبث اور فضول ہی ہے۔ پوری دنیا میں سفارتی مہم کی ناکامی پر بھارت کی سبکی جو ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ عوام کی طرف سے بھی بی جے پی پر خوب تنقید ہو رہی ہے۔ حکومت کے وزراءاب اس شرمندگی سے بچنے کے لیے ایسے الٹے سیدھے بیانات دے رہے ہیں۔ورنہ اگر بھارت این ایس جی کا ممبر بن جاتا تو پورے بھارت میں دیوالی کا سماں ہوتا۔ حکومتی وزراءجو آج تھو تھو کر رہے ہیں وہ بھنگڑے ڈال رہے ہوتے۔ سشما سوراج سے لیکر سری نواسن تک مودی کو پرماتما بنانے پر تلے ہوتے۔
اب اس وقت مودی جی بھی کسی گوشہ تنہائی میں بیٹھے اپنے زخم چاٹ رہے ہوں گے۔ کیوں وہ خود بھی این ایس جی کے ہر بڑے ممبر کے گھر خود گئے انہیں آمادہ کرنے کے لیے۔ امریکی چتر شاہی بھی ان کے سر پر تھا۔ مگر افسوس کچھ بھی نہ ان کے کام آیا نہ ہاتھ آیا....
....٭....٭....٭....٭....٭....
صحت یابی کے بعد میاں نواز شریف کی لندن میں شاپنگ
یہ تو بڑی اچھی بات ہے اور خبر بھی کہ وزیر اعظم تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ ہلکی پھلکی واک کے بعد اب ان کی ہلکی پھلکی شاپنگ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بالکل فٹ ہو رہے ہیں اور بہت جلد اپنے عوام کے درمیان ہوں گے۔ اس لیے پاکستان روانگی سے قبل ہی ساری شاپنگ مکمل کرنا چاہتے ہیں۔
لندن کے مہنگے شاپنگ سٹور بیرڈزمیں شاپنگ کی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ میاں صاحب اب بہت بہتر ہیں اور چشم بد دور پہلے کی طرح تروتازہ نظر آ رہے ہیں۔ رہی بات ان کے چہرے پر پھیلی سنجیدگی کی تو وہ ان کی فطری عادت ہے کوئی اس کا مطلب ہر گز یہ نہ لے کہ وہ مخالفین کے پانامہ لیکس پر شور شرابے اور احتجاجی تحریک چلانے کی دھمکیوں پر پریشان ہیں۔
اگر ایسی کوئی بات ہوتی اور میاں جی اسے دل پہ لیتے تو وہ اتنی جلدی صحت یاب ہر گز نہ ہوتے۔ عوام اور میاں جی کے چاہنے والوں کی دعائیں رنگ لاتی ہیں اب دیکھنا ہے اگر میاں صاحب عید کا چاند بن کر قبل از شوال تشریف لاتے ہیں تو ان کے چاہنے والے
کیسی خوشی لے کر آیا چاند عید کا
مجھے مل گیا بہانہ تیری دید کا
کا کورس گاتے ہوئے ان کا استقبال کریں گے۔ اگر عید کے بعد آئے تو وہ دن بھی ان کے لیے عید سے کم کا نہیں ہو گا۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
کوئی پیر فقیر نہیں جو بتا سکوں امجد صابری کے قاتل کب پکڑے جائیں گے: قائم علی شاہ
یہ تو شاہ جی کی کسر نفسی ہے جو اتنا کہہ دیا ورنہ دنیا جانتی ہے شاہ جی سائیں لوک ہیں۔ پیروں فقیروں کی طرح یہ سائیں بھی بڑے پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ یقین نہ آئے ہماری بات پر تو خود دیکھ لیں گزشتہ 8برس سے مسلسل نان سٹاپ سندھ پر سائیں جی کی حکومت قائم ہے۔ بڑے بڑے لوگوں کے دلوں میں وزیر اعلیٰ بننے کی خواہشیں مچلتی رہیں۔ زرداری جی کو الٹی سیدھی پٹی پڑھانے والے بھی بہت تھے مگر یہ سائیں جی کی روحانیت کا کرشمہ ہے کہ زرداری صاحب جیسے جہاندیدہ سب پہ بھاری سیاستدان نے بھی سائیں کی قائم دائم حکومت کو نہیں چھیڑا، بڑے بڑے پٹیاں پڑھاتے رہ گئے۔ بس یہ تو ان کی عاجزی اور انکساری ہے کہ نجانے کتنے منہ زور وزراءنے، طاقتور بااثر شخصیات نے ان کے ہوتے ہوتے ہر طرح سے وزیر اعلیٰ کے اختیارات استعمال کیے مگر کیا مجال ہے ہمارے اس صوفی منش وزیر اعلیٰ کے ماتھے پر شکن تک آئی۔ ایسا سادہ اور بے ضرر وزیر اعلیٰ کسی اور صوبے کی قسمت میں کہاں۔ اب امجد صابری کے قاتلوں کو پکڑنے کی مدت نہ بتانے کا کہہ کر وہ اپنی عاجزی دکھا رہے ہیں۔
اس پر بھی مخالفین شور مچا رہے ہیں کیونکہ ایسا بیان وزیر اعلیٰ کے شایان شان نہیں ہوتا۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر جا کر بن باس لیں۔ یہ لوگ بھی حد کرتے ہیں آخر پولیس اور رینجرز والوں سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے وہاں ان کی زبان کیوں کٹتی ہے۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
تحریک انصاف کس منہ سے وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرتی ہے ان کے لیے پرویز رشید ہی کافی ہیں: نثار
کیا استعفیٰ مانگنے کے لیے کوئی دوسرا منہ ہوتا ہے یہ تو چودھری صاحب ہی بتا سکتے ہیں ورنہ جس منہ سے اپوزیشن کو اسمبلی میں بیٹھ کر مذاکرات کی دعوت دی جاتی ہے اس منہ سے انہیں دعوت مبازرت دینا بھی درست نہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف والے عید کے بعد پی پی پی کے ساتھ گلیوں سڑکوں پر آنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ دوسری طرف خود حکمرانوں کی صفوں میں موجود جنگجو بھی جلتی پر تیل ڈالنے میں مصروف ہیں۔ چودھری صاحب کو سب معتدل مزاج ٹھنڈے دماغ کا انسان سمجھتے ہیں۔ وہ تو تندوتیز ماحول میں بھی خود کو کول رکھتے ہیں تو پھر یکدم تیزی کہاں سے آ گئی۔ ہنوز تو حکومت پانامہ لیکس سے نجات پانے کے چکروں میں ہے جو دن بدن گھن چکر ہوتا چلا جا رہا ہے ایسے میں آگ لگانے کے لیے کہ چودھری صاحب بھی میدان میں آ گئے۔ اب خدا خیر کرے۔ پرویز رشید تو پہلے ہی مدرسہ حقانیہ کے فنڈز پر خیبر پی کے حکومت کی بجائے تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی کلاس لے رہے ہیں۔ کیا انہیں مولانا فضل الرحمن اور ان کے مدرسوں کو دی جانے والی فراخ دلانہ حکومتی امداد نظر نہیں آ رہی۔
....٭....٭....٭....٭....٭....