بدھ ‘ ‘ 1435 ھ ‘ 27 اگست2014ئ
محترم مجید نظامی 1950ءسے 1955ءتک نوائے وقت کا معروف کالم ”سرراہے“ باقاعدگی سے لکھتے رہے جو ان کی حسِ مزاح اور فکاہیہ کالم میں پختگی کا بیّن ثبوت ہے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے محترم مجید نظامی کے تحریر کردہ سرراہے کے منتخب ٹکڑے پیش کئے جا رہے ہیں۔ (ایڈیٹر)
پاکستان میں اردو پریس کافی مضبوط، بااثر اور ترقی یافتہ ہے لیکن دلچسپ بھی بہت ہے۔
مالک یا ایڈیٹر کو چھینک آ جائے تو صبح اس کی دو کالمی خبر بن جاتی ہے۔ اگر کسی گزرتے ہوئے یار دوست یا واقف کار کو چائے کی پیالی یا برف والے پانی کا گلاس پیش کر دیا جائے تو وہ ”دعوت عصرانہ“ بن جاتی ہے۔ اگر کسی رشتہ دار کی نصیب دشمنان طبیعت ناساز ہو جائے تو قارئین کرام سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ پانچ وقت نماز پڑھیں اور نماز کے بعد خدا تعالی کے حضور میں ان صاحب کی صحت کاملہ کیلئے خضوع وخشوع سے دعا کریں۔ اگر کسی کاتب، چپڑاسی یا کسی اور دفتری کارندے کے کوئی عزیز اللہ کو پیارے ہو جائیں تو سیاہ چوکھٹے میں قارئین کرام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ دعا کریں کہ اللہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے (اور ادارہ تحریر کو عقل سلیم؟) یا کسی کے ہاں لڑکا یا لڑکی تولد ہو گئی ہے تو کئی ماہ مبارک باد کے خطوط ہی چھپتے جائینگے۔ یہ عقیقہ ہو رہاہے۔ اب رسم بسم اللہ ہو رہی ہے اب یہ ہو رہا ہے اور اب وہ ہو رہا ہے لیکن ہمارے معاصر ”خاتون“ نے اس معاملہ میں سب ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے اور اس خوشی میں شریک ہو جائیے۔
”مبارک باد.... ہمیں تحریر کرتے ہوئے مسرت ہوتی ہے کہ روزنامہ خاتون کی خریدار بہن .... کے ہاں اللہ تعالی نے اپنے کرم و فضل سے بروز جمعہ بتاریخ 14 جون بوقت بارہ بجے دوپہر ایک نہایت خوبصورت فرزند ارجمند عطا فرمایا ہے۔ بچہ کا نام.... رکھا گیا ہے ادارہ والدین کو مبارکباد پیش کرتا ہے۔“
”خاتون“ کی خواتین خریداروں کی تعداد ہزاروں کی ہو گی اور ان میں سے بیسیوں”خریدار بہنوں“ کے یہاں ہر روز خدا کے فضل و کرم سے بچے ہوں گے۔ اگر مبارک بادوں کا یہ سلسلہ جاری ہو گیا تو ہمیں امید ہے کہ ”خاتون“ کے ادارے کو اس سلسلہ میں علیحدہ ضمیمہ نکالنا پڑا کرے گا۔
(مجید نظامی‘ جمعہ 23 جون 1950)
٭....٭....٭....٭
عمران ضدی بچے کی طرح ضد نہ کریں۔حمزہ شہباز۔ دنیا میں 3 ضدیں مشہور ہیں پہلی بالک ہٹ دوسری راج ہٹ تیسری تریا ہٹ یعنی بچے کی ضد عورت کی ضد اور بادشاہ کی ضد ان کو پورا کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ اب حمزہ نے جو ایک اچھے بچے کی طرح عمران کو ضد نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے تو اس سے لگتا ہے کہ خود حمزہ بھی ابھی تک بدھو بالک ہی ہیں۔ ورنہ وہ ایسا مشورہ کیوں دیتے۔ بلکہ بہتر تھا یہ شعر سنا دیتے۔ ....
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند
کیسی انوکھی بات ہے .... .... ....
اب ایک طرف عمران کی بالک ہٹ ہے تو دوسری طرف نواز شریف بھی تو راج ہٹ کا مظاہر کرتے رہے ہیں۔ ورنہ 4 حلقوں سے بڑھتے بڑھتے بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اسلام آباد کی سڑکیں فلتھ ڈپو میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ اگر پہلے ہی میاں صاحب ضد چھوڑ کر بات مان لیتے تو آج ضدی بچے کی بڑھتے ہوئے مطالبات سے خود بھی محفوظ ہوتے اور اسلام آباد کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
حکومت اور اپوزیشن دھرنوں اور ریلیوں کے چکر میں، عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری نے مار ڈالا۔ سارا جھگڑا ہی کرسی کا ہے جس پر اپوزیشن براجمان ہونا چاہتی ہے اور حکمران اسے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں اس دھینگا مشتی میں سب سے برا حال عوام کا ہو رہا ہے۔ حکومت کی توجہ امن و امان روزگار اور کاروبار سے ہٹ کر دھرنوں پہ ہے اور ملک میں غنڈہ عناصر اور ناجائز منافع خوروں نے ”ات“ مچا رکھی ہے۔ کوئی ان کا ہاتھ روکنے والا نہیں۔ پولیس دھرنوں اور ریلیوں کی حفاظت یا ان سے نمٹنے کےلئے موجود ہے تو چوروں، ڈاکوﺅں اور دیگر جرائم پیشہ افراد سے کون نمٹے گا۔ وہ کہتے ہیں ناں....
آگ لگی ہمری جھونپڑیا میں
ہم گائیں ملہار .... .... ....
اسکے باوجود سب اچھا کے بیانات شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے کے مترادف ہیں۔ اگر حکومت نے فوری توجہ نہ دی تو دھرنے اور ریلیوں میں کچھ ہو یا نہ ہو۔ روٹی 8 روپے نان 10 روپے، آلو80 روپے، پیاز 70 روپے کلو ہونے پر عوام کا پیمانہ صبر ضرور لبریز ہو جائے اور اسکے بعد عمران خان یا طاہر القادری کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور عوامی غیض و غضب کا لاوا خود ہی اپنی راہ میں آنیوالی ہر چیز کو بھسم کرتا چلا جائیگا۔ اس سے پہلے یہ نوبت آئے حکومت مہنگائی اور جرائم پر نظر کرے‘ ورنہ کہیں پورا ملک ہی دھرنوں کی لپیٹ میں نہ آ جائے۔
٭....٭....٭....٭
حکومت سر پہ ہاتھ رکھے تو طاہر القادری اور عمران خان کو دھرنے ختم کرنے پر آمادہ کر سکتی ہوں:میرا کی پیشکش۔ معلوم نہیں میرا جی کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ اسکی مدد سے مولانا اور خان کو راضی کر لیں گی جب کہ وہ دونوں نواز شریف کے جانے تک واپس نہ آنے کی قسم کھائے بیٹھے ہیں اور قادری نے اپنے اور عمران کے بارے میں ناکام واپس آنے پر قتل کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ اب کیا میراجی ان دونوں کو مروانے کے چکر میں ہیں۔ رہی بات سر پہ ہاتھ رکھنے کی تو حکومت میرا کے سر پہ ہی کیوں ہاتھ رکھے۔ کیا نور، ریشم، لیلیٰ جیسی خوش اطوار اداکارائیں مر کھپ گئی ہیں یا میرا جی کو اپنے سوا کوئی اور نظر نہیں آتا۔
طاہر اور عمران کی کون ضمانت دے کہ وہ میرا سے ملنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں کیونکہ اس وقت تو ان کا ایک ایک لمحہ انقلاب یا آزادی کے لئے وقف ہے۔ اور اس انقلاب یا آزادی میں دور دور تک کسی عہد رفتہ کا تذکرہ نہیں ملتا کیونکہ یہ وقت جوان خون اور جواں جنون کا ہے۔ جس کی بڑی تعداد دھرنوں میں شریک ہے۔
نئی دہلی کی یہ خبر پڑھ کر کہ وہاں دو لیڈی مجسٹریٹ کام کر رہی ہیں۔ خواتین کے معزز روزانہ اخبار ”خاتون“ نے مطالبہ کیا ہے کہ لاہور میں بھی خواتین کے مقدمات کیلئے لیڈی مجسٹریٹ مقرر ہونی چاہئیں۔ اگر یہ ممکن نہیں تو کم از کم تجربہ کار اور عمر رسیدہ خواتین کو آنریری مجسٹریٹ ہی مقرر کر دیا جائے۔ اس اخبار نے ”مردانہ اخباروں“ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس تجویز کی تائید کریں۔
ہم اس تجویز کی تہہ دل سے تائید کرتے ہیں تنخواہ دار لیڈی مجسٹریٹ مقرر کی جائیں یا نہ۔ ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں البتہ ”تجربہ کار اور عمررسیدہ“ خواتین کو آنریری مجسٹریٹ ضرور مقرر کیا جائے اور آخر اس میں حرج کی بات ہی کیا ہے جبکہ میونسپلٹیوں اور اسمبلیوں میں عورتوں کی نمائندگی عورتیں کر رہی ہیں۔ عورتوں کیلئے زنانہ سکول، زنانہ کالج، زنانہ جیل، پاگل خانوں اور ہسپتالوں میں زنانہ وارڈ، زنانہ پولیس زنانہ ٹکٹ ایگزامینر، سنیما میں زنانہ شو، ہوٹلوں میں عورتوں کیلئے خاص انتظام وغیرہ کی موجودگی میں لیڈی مجسٹریٹ مقرر کرنے میں کیا قباحت ہے؟ ہمارے خیال میں صرف لاہور میں ہی نہیں۔ ہر بڑے شہر میں جہاں عورتوں کے مقدمات کثرت سے آتے ہیں لیڈی مجسٹریٹ مقرر ہونی چاہئیں۔ ہو سکے تو ان عدالتوں میں مقدمات کی پیروی بھی لیڈی وکیل ہی کیا کریں۔ یہ کام مرد وکلا کی پڑھی لکھی بیویاں معمولی سا امتحان پاس کرنے کے بعد آسانی سے کر سکتی ہیں۔ مقدمات کی تیاری میں شوہران کرام مدد کر دیا کریں گے۔ اور پھر پاکستانی بھی کہہ سکیں گے کہ ہمارے ملک میں خواتین کو اتنی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے مقدمات کے فیصلے بھی خود ہی کرتی ہیں۔ ممکن ہے یہ لیڈی مجسٹریٹ خواتین ہی روز افزوں غیر ذمہ دارانہ اور غیر پسندیدہ ”آزادی“ کی روک تھام کر سکیں اور اس کی کوئی حد مقرر کر دیں۔
٭....٭....٭....٭