بدھ ‘ 19 ؍ رجب المرجب 1437ھ‘ 27 اپریل 2016ء
عمر اکمل اور 6 دیگر کرکٹروں کی فیصل آباد میں ہنگامہ آرائی
خبروں میں رہنا بہت سے لوگوں کو اچھا لگتا ہوگا مگر غالب کی طرح ’’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ والی حالت اور حرکات پر اتر آنا کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ عمر اکمل کچھ زیادہ ہی محفل رقص و سرود کے شوقین لگتے ہیں۔ اسی لئے جہاں موقع ملے خود بھی رقص فرما کر شائقین کا اورحاضرین کا لہو گرماتے ہیں۔ ناچنے میں انہیں مہارت حاصل ہے شاید اسی لئے کرکٹ پر ان کی توجہ کم اور ڈانس پر زیادہ ہے۔
اب یہ جو فیصل آباد کے کسی تھیٹر میں رقاصہ سے ’’ونس مور ونس مور‘‘ کی شکل میں دیگر کرکٹرز کو ساتھ ملاکر کورس کی شکل میں تقاضاشروع کیا اور کنٹرول سے باہر ہونے لگے تو تھیٹر انتظامیہ نے بڑی مہارت اور چابکدستی سے سکیورٹی گارڈز کی مدد سے انہیں تھیٹر سے باہرمنتقل کردیا۔ کیونکہ شائقین نے ڈرامہ دیکھنے کیلئے پیسے دیئے تھے، عمر اکمل اور انکے ساتھیوں کی مسخری دیکھنے کیلئے نہیں۔ اچھا ہوامعاملہ جلد رفع دفع ہوگیا، اب عمراکمل فرماتے ہیں کہ میڈیا میری نجی زندگی میں دخل نہ دے، تفریح کرنا کوئی غلط کام نہیں نہ پی سی بی کے رولز کی خلاف ورزی ہے۔ بات تو انکی درست ہے مگر بس اتنا کہنا ہے کہ نجی بات اس وقت تک نجی رہتی ہے جب تک سرعام نہ ہو۔ جو کام سب کے سامنے کھلے عام ہو‘ اسے نجی کیسے کہا جا سکتا ہے اس لئے کچھ کرنے سے پہلے اردگرد دیکھنا بہتر ہوتا ہے بڑے اسی لئے تو کہتے ہیں میاں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں‘ میڈیا کے پاس تو آنکھیں بھی ہیں اس لئے ذرا بچ کے!
٭…٭…٭…٭
پی آئی اے نے بوئنگ طیاروں کے پائلٹوں کی تنخواہ میں سوا لاکھ کا اضافہ کردیا
سچ کہتے ہیں’’زندہ ہاتھی لاکھ کا مرا سوا لاکھ کا‘‘ ایک طرف پی آئی اے کی حالت یہ ہے کہ اس سے اپنے بے تحاشہ ملازمین اور عمر رسیدہ طیاروں کے اخراجات کابوجھ نہیں سنبھالا جا رہا وہ ملکی معیشت کی طرح مسلسل خسارے میں جارہی ہے۔ دوسری طرف پائلٹوں کی تنخوائوں میںایک لاکھ سے ایک لاکھ 30 ہزار روپے تک اضافہ نجانے کس خوشی میں کیا جا رہا ہے۔ عرصہ دراز سے تمام تر تباہی و بربادی کی داستانوں کے باوجود یہ ایئر لائن … پشٹم چل رہی تھی اور یہی اس کی لاجواب سروس کا انتہائے کمال تھا کہ رکی نہیں گری نہیں، ورنہ ایسے اناڑی پائلٹ اور کھٹارا طیارے بھلا کسی اور ایئر لائن میں کہاں ہونگے۔ پھر بھی یہ ہوا میں اڑتی پھرتی نظر آتی تھی۔اب محسوس ہوتا ہے کہ نئی ائیر لائن کی انٹری جلد کرانے کیلئے تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ تاکہ خسارہ مزید بڑھے اور اس قومی ایئرلائن کے پاس اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے کچھ نہ بچے۔ تو یہ خود بخود بند ہو جائے گی اسکے بعد باقی جو بچے اسکی نجکاری کے نام پر لوٹ سیل ہو اور یوں پیسہ ہضم، کھیل ختم، پھر کوئی اور نئی ایئر لائن پی آئی اے کی لاش پہ اپنا نیا شیش محل تعمیر کرے گی۔
سوا دو سو ارب روپے کے جنگلات کاٹنے والے آف شور کمپنی والوں سے بھی بڑے مجرم ہیں: عمران خان
یہ ہوئی نہ بات ایک قومی سطح کے لیڈر کی جس کے دل میں قومی اثاثوں کا درد ہے۔ آف شور پہ شور مچانا اپنی جگہ مگر اپنے سامنے اپنی قومی دولت لٹتے دیکھنا اور اس پر خاموش رہنا واقعی بہت بڑا جرم ہے۔ اب گزشتہ آٹھ دس برسوں کے دوران صرف صوبہ خیبر پی کے میں جنگلات کاٹنے والے ان محب وطن عناصر کا قلع قمع کرنے کا وقت آ گیا ہے جو سیاست کا نقاب اوڑھے عوام پر مسلط رہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ایک طرف صوبے کے حقوق و تحفظ کے نام پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہیں ہونے دیتے۔ دوسری طرف خود اپنے صوبے کے جنگلات برباد کر رہے ہیں۔ کیا انہیں اس وقت اپنے صوبے کا مفاد یاد نہیں رہتا۔ اگر جنگلات کاٹنے کی یہی رفتار رہی تو بہت جلد خیبر پی کے جو سرسبز جنگلات کی وجہ سے مشہور ہے ٹنڈ منڈ پہاڑوں کا مسکن نظر آئیگا۔ پھر یہ ٹمبر مافیا کہاں سر چھپائے گا۔عمران خان اگر آف شور کمپنیوں کے دو سو ارب روپے پر پورا پاکستان سر پر اٹھا سکتے ہیں تو اب اپنے صوبے کی بقا کیلئے بھی وہ کھل کر میدان میں آئیں اور جنگلات کے خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والوں کی بھی خبر لیں۔ خواہ انکی اپنی پارٹی کے رہنما ناراض ہوں یا اتحادی۔ رہے اپوزیشن والے تو ٹمبر مافیا میں انکے بھی بڑے بڑے عوام دوست وطن دوست قسم کے رہنما مل جائینگے۔ جب آف شور کمپنیوں پر آپ وزیر اعظم کو نہیں چھوڑ رہے تو اس جنگل خور مافیا سے ڈرنا کیسا اور ان سے رو رعایت کیسی! پاکستان صرف سیاسی ہی نہیں ماحولیاتی تباہی کے خطرے سے بھی دوچار ہے اسے اس عفریت سے بچانا سیاستدانوں کا کام ہے صرف سائنسدانوں سے یہ کام نہیں ہو گا کیونکہ ان میں لکڑ چور نہیں ہوتے…
٭…٭…٭…٭
تحقیقاتی کمیشن نے تھر میں اموات کا ذمہ دار صوبائی محکموں کو قرار دیدیا۔
اس طرح بخیر و خوبی سندھ کے حکمرانوں اور وزراء کی گردن اس قضیئے سے چھڑا لی گئی۔ سوال تھر میں بیڈ گورننس کا تھا‘ جواب آیا محکمانہ تبادلوں کی وجہ سے صورتحال خراب ہوئی۔بھوک ننگ‘ بیماری جہالت‘ غربت‘ فرسودہ رسوم و رواج کا خاتمہ حکومت کا کام ہوتا ہے۔ جب وہ ہی دلچسپی نہیں دکھاتی تو نچلے سرکاری ملازمین کو کیا پڑی کہ وہ دور افتادہ پسماندہ علاقوں کا رخ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی ہسپتال ڈاکٹروں اور ادویات سے خالی ہوتے ہیں سچ پوچھیں تو طبی عملہ بھی نہیں آتا۔
یہاں خاکروب اور چپڑاسی ہی ڈاکٹر سرجن اور ڈسپنسراور سب کچھ ہوتے ہیں۔ مرہم پٹی سے لیکر آپریشن تک بھی یہی کرتے ہیں۔تھر میں پانی کی قلت آج سے نہیں صدیوں سے ہے۔ اسے ختم نہیں تو کم تو کیا جا سکتا ہے۔ زچہ و بچہ کے ہسپتال نہ سہی طبی حفاظتی مراکز ہی عملے سمیت ہوں تو اموات کی شرح کم ہو سکتی ہے۔ مگر اس کی نہ وزیروں کو فکر اور پرواہ ہے نہ سرکاری افسران کو۔ رہی بات تحقیقاتی کمشن کی حقانیت کی تو اس کیلئے صرف یہی کہہ سکتے ہیں۔ …ع
’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘‘