جمعة المبارک‘ 29 شعبان المعظم 1438ھ‘ 26 مئی 2017ء
امریکی صدر ٹرمپ کی پوپ سے ملاقات میں ایوانکا اور ملانیا نے سر پر سکارف اوڑھا
کسی اسلامی ملک میں جانا ہو تو وہاں کے لباس اور روایات کی پابندی کے حوالے سے نجانے کیوں اہل مغرب کے سربراہوں اور ان کی بیگمات کو اچانک قدامت پسندی سے نفرت کا شدید دورہ پڑتا ہے اور اس کے ساتھ ہی انہیں اپنی لبرل اور آزادانہ سوچ اور روایات پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ اب ٹرمپ صاحب‘ ان کی بیگم ملانیا اور بیٹی ایوانکا کو ہی دیکھ لیں ان کی ساری روشن خیالی آزاد خیالی صرف اور صرف سعودی عرب کے دورے کے موقع پر ان کا سرمایہ افتخار بنی ہوئی تھی۔ انہیں ویٹی کن میں سکارف لینا قدامت پرستی اور رجعت پسندی کی علامت کیوں نظر نہیں آیا۔ انہوں نے اگرچہ سعودی عرب میں مقامی روایات کے احترام میں مناسب لباس زیب تن کیا ہوا تھا مگر عربی اور اسلامی روایات کے مطابق سر کو ڈھانپنا مناسب نہیں سمجھا شاید انہیں اس میں قدامت پرستی اور رجعت پسندی کی بو آتی ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے جب یہی دونوں خواتین اپنے مذہبی رہنما پوپ سے ملنے گئیں تو انہوں نے احتراماً سر کو سیاہ سکارف سے ڈھانپا ہوا تھا۔ کیا یہی روشن خیالی اور جدت پسندی ہے جس کا یہ ڈھنڈورا پیٹتے تھے۔ یہاں انہیں جدت پسندی اور آزاد خیالی یاد کیوں نہیں آئی۔ اب کیا کہتے ہیں اہل مغرب جو مسلمان عورت کو سکارف میں دیکھیں تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور آوازے کستے ہیں۔ کیا وہ ان دونوں کو بھی اسی طرح تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں جس طرح مسلم عورت کو سکارف پہننے پر بنایا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
پنجاب بھر میں کلرکوں کی قلم چھوڑ ہڑتال اور مظاہرے
یہ تو اب ایک روٹین کی کارروائی لگتی ہے کہ جب بھی بجٹ آتا ہے اس سے پہلے ہی ملک بھر میں کلرک اور دیگر دفتری سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں کے حوالے سے سینہ پیٹتے، روٹیاں گلے میں لٹکائے قمیضیں اتارکر ہائے ہائے کے نعرے لگاتے جلسے اور جلوس منعقد کرکے حکومت کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں۔ کاش کبھی یہ اپنی سرکاری ڈیوٹیاں بھی اتنی ہی تندہی کے ساتھ ادا کریں تو عوام انہیں ہر وقت دعائیں دیتے اور ان کی دعاﺅں کے سبب ان کی تنخواہیں خود بخود بڑھتیں۔ مگر سرکاری ملازمین کا عوام کے ساتھ جو رویہ ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ اس لئے عوام کی بددعاﺅں کے اثر سے ان کی آہیں، مظاہرے اور شور شرابا اثر نہیں کر پا رہا۔ ہاں اگر وہ اب بھی عہد کر لیں کہ وہ عوام کے ساتھ اپنا رویہ درست کر لیں گے تو شاید ان کی نیک نیتی کے سبب اس بار ان کی آہیں اور مظاہرے رنگ لے آئیں اور حکومت ان کی تنخواہوں میں معقول حد تک اضافہ کر دے جس سے وہ خوش ہو جائیں۔ ویسے جو حکومت وزرائ، ممبران اسمبلی اور اعلیٰ افسران کی تنخواہوںمیں فراخ دلی سے اضافہ کرتی ہے اسے عام سرکاری ملازمین کی حالت زار کیوں نظر نہیں آتی جو بیچارے اس کم تنخواہ میں نجانے کس طرح بیوی، بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ تعلیم صحت اور رہائش کے اخراجات کا تو ذکر ہی عبث ہے کیونکہ یہ سب شامل کئے جائیں تو شاید حکمرانوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جائیں ان غریبوں کی حالت زار دیکھ کر کہ یہ لوگ زندہ کس طرح ہیں۔ حکومت ان کے مطالبات پر نظر کرم کرتے ہوئے ان کی تنخواہوں میں معقول اضافہ کرے اور ان کی دعائیں لے۔
٭٭٭٭٭٭٭
سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی ختم کرانے پر تیار ہیں: دفتر خارجہ
دفتر خارجہ کی اس سوچ پر تو صدقے واری جانا چاہیے کہ وہ ان ممالک کے مابین مصالحت کار بننا چاہتا ہے جو اس کو تین یا تیرہ میں شمار ہی نہیں کرتے۔ سعودی عرب میں تمام تر سعادت مندی کے باوجود ہمیں وہ عزت بھی حاصل نہیں ہوسکی جو یوگنڈا کے عیدی امین کو حاصل تھی۔ تو بھلا وہ ہمیں ثالث کیا مانیں گے۔ وہ تو ہمیں اپنے برابر کا نہیں سمجھتے۔ وہ تو خود کو ہمارا کفیل گردانتے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کو ہم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ رہی بات ایران کی تو وہ بھی اب ہم سے دامن چھڑا کر کب کا بت ہندی کا اسیر ہو کر اس کے دامن سے وابستہ ہو گیا ہے۔ اسے ہماری دوستی پر اعتماد نہیں رہا یہ تو....
دوست دوست نہ رہا
پیار پیار نہ رہا
زندگی ہمیں تیرا اعتبار نہ رہا
والی بات ہے۔ اس کے باوجود اگر ہم اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان دونوں میں سے کوئی ہماری بات سنے گا تو محض خوش فہمی یا غلط فہمی ہے۔ اب کہیں ثالث بننے کے شوق میں ہم چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پسنے والی حالت میں نہ آ جائیں اس لئے چاہے ”یا شیخ“ ہو یا ”یا برادر“ ان دونوں کو اپنا مسئلہ خود ہی حل کرنے دیں جس طرح انہوں نے ہمیں اپنا مسئلہ کشمیر بھارت سے حل کرنے کے لئے ہمارے حال پر چھوڑا ہوا ہے۔ ہماری عزت اسی میں ہے کہ اپنی دستار محفوظ رکھیں۔ دوسروں کے پنگوں میں شامل ہونے کا انجام ہم کافی بھگت چکے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
عمر اکمل فٹنس مسائل کی وجہ سے کرکٹ ٹیم سے ڈراپ
معلوم نہیں وہ فٹنس ٹیسٹ میں کامیاب کیوں نہ ہو سکے۔ حالانکہ ان کی سوشل میڈیا پر مختلف اداکارا¶ں کے ساتھ یا شادی اور سالگرہ کی نجی تقریبات میں ڈانس کی جو فلمیں چل رہی ہیں ان میں تو موصوف مکمل فٹ نظر آتے ہیں۔ ایسی پھرتی اور رقص میں مہارت جو عمر اکمل کو حاصل ہے اس کا مقابلہ صرف ہمارے سابق صدر پرویز مشرف ہی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی عدالتوں میں بہ سبب بیماری حاضر ہونے سے ہمیشہ قاصر رہے ہیں۔ اکثر انہیں گردن، کمر اور دل کا عارضہ لاحق رہتا تھا مگر جونہی علاج کے لئے لندن یا دبئی جاتے ہیں وہاں جا کر شادی ہو سالگرہ ہو یا کوئی اور تقریب‘ وہ خوب ہلا گلا کرتے ہیں۔ اس دوران انہیں کوئی بیماری لاحق نہیں ہوتی۔ یہی حال لگتا ہے عمر اکمل کا ہے۔ جو ویسے تو بالکل فٹ ہیں مگر نجانے کیوں انگلینڈ میں اپنی فٹنس ثابت نہ کر سکے اور ٹیم سے ان کو ڈراپ کر دیا گیا۔ جو شخص اچھا ڈانس کر سکتا ہے وہ تو ہر لحاظ سے فٹ فاٹ ہوتا ہے۔ اب یہ کسی دشمن کی سازش لگتی ہے کہ عمر اکمل کو ڈراپ کرنے کیلئے فٹنس کا بہانہ بنا دیا یا شاید خود عمر اکمل نے کسی ڈانس پارٹی میں شرکت کرنی ہو اس کےلئے واپس آنا چاہتے ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭