منگل‘ 7 شعبان المعظم 1436ھ ‘ 26 مئی 2015ئ
حقوق نہ ملے تو پورے ملک میں آگ لگا دیں گے: پرویز خٹک
میں آگ لگانے آیا ہوں
میں آگ لگا کر جاﺅں گا
والا شعر ایسے ہی مقررین پر فٹ بیٹھتا ہے جو مجمع میں لہو گرمانے کے نام پر گلیوں اور سڑکوں پر گاڑیاں موٹر سائیکلیں اور دکانوں کو آگ لگانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ تحریک انصاف میں بیرونی عناصریعنی شیخ رشید یہ کام بخوبی کر رہے تھے کہ اب اندرون خانہ پرویز خٹک نے بھی توپ و تفنگ کا کام سنبھال لیا ہے۔ شاید انکی اندر کی چھپی ایسی صلاحیتیں بہت پہلے پرویز رشید صاحب (جن کے نام میں رشید بھی آتا ہے اور پرویز بھی) نے پہچان کر آگ والی خواہش کا اسیر دیکھ کر انہیں ”تیلی پہلوان“ کا خطاب دیا تھا۔ کیونکہ تیلی جلائے بنا آگ نہیں لگ سکتی۔ اب پاک چائنہ کاریڈور کے مسئلے پر تحریک انصاف کی یہ تیلی جل کر شعلہ بن گئی ہے۔ دیکھنا ہے پٹرول کون اور کہاں سے میسر کرتا ہے۔ ویسے بھی تیلی پہلوان کی سنگت میں اس وقت ایک اور پیر تسمہ پا یعنی اسفند یار ولی بھی اپنی پوری ناتوانی کے باوجود ”ابھی تو میں جوان ہوں“ کا مظاہرہ کرکے اس منصوبے کو کالاباغ ڈیم بنانے پر تلے ہیں۔ ان دونوں دھان پان سے جنونیوں کی حالت دیکھ کر تو ....
بدھو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں
گو مشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
والا شعر بے ساختہ زبان پر آ جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے دھرنے نے پہلے چین کے صدر کا دورہ ملتوی کر ایا۔ اب اے این پی کےساتھ مل کر عظیم منصوبے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ یہ عمران خان کی سیاسی ذہانت کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس راہداری میں تبدیلی کے مسئلے کو ہینڈل کرتے ہیں ورنہ یہ ماچس کی تیلیاں اس منصوبے کے ساتھ کہیں تحریک انصاف کا خرمن بھی نہ جلا ڈالیں۔ اے این پی والے تو پہلے ہی سندھی قوم پرستوں کیساتھ مل کر کالاباغ ڈیم میں منہ کالا کر چکے ‘ اب اس منصوبہ میں وہ بلوچستان کو ملا کر بھارتی مال حلال کرنا چاہتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
پاکستان میں48فیصد لڑکے اور لڑکیاں شوقیہ ڈاکٹر بنتے ہیں: رپورٹ
پنجابی میں شاید اس لئے کہتے ہیں ”شوق دا کوئی مل نئیں“ یہ شوقین طلبہ و طالبات ایسے ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں کا حق مارتے ہیں جو حقیقت میں ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے سنتے آئے تھے کہ اکثر خوشحال گھرانوں کے بچے اور بچیاں صرف نام و نمود کےلئے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں۔ انہیں تعلیم سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ یوں بہت سے غریب مگر حقدار بچے ان اداروں میں داخلے سے رہ جاتے تھے۔ رہی سہی کسر سیلف فنانس نے پوری کر دی۔ اب ہرامیر بچہ پیسے کے زور پر کہیں بھی داخلہ لے سکتا ہے۔اب یہ جو 48فیصد ڈاکٹر بنتے ہیں ۔ یہ دور دراز علاقوں میں پسماندہ علاقوں میں نوکری کرنے یا یوں کہہ لیں ڈیوٹی دینے کی بجائے گھروں میں آرام کی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یوں ان کا علم اور حکومت کا وقت اور پیسہ ضائع ہو جاتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ حکومت میڈیکل کالجوں میں داخلے کے وقت 3 سال کم از کم دیہی اور پسماندہ علاقوں میں جاب لازمی قرار دے ورنہ ڈاکٹر صاحب یا صاحبہ پر اٹھنے والا حکومتی خرچہ واپس وصول کیا جائے۔ جتنے سستے میں پاکستانی ڈاکٹر بنتے ہیں کسی اور ملک میں طلبہ کو یہ سہولت میسر نہیں اسی لئے تو کہتے ہیں ”گھر کی مرغی دال برابر“
ڈاکٹر بننے والے ایسے طلبہ کم از کم دوسرے مستحق اور حقدار طلبہ پر ستم نہ کریں۔ان کےلئے جگہ رہنے دیں۔ حکومت اگر ایسے ڈاکٹروں کو خصوصی ہر قسم کی سہولتیں مراعات دے جو پسماندہ دور دراز علاقوں میں جاب کرتے ہوں تو بہت سے ڈاکٹر اس طرف متوجہ ہو سکتے ہیں مگر ہمارے ہاں تو شہروں کے ڈاکٹرز بھی آئے روز سڑکوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں کبھی کسی مطالبہ پر ان کی مانگ بڑھتی جاتی ہے اور مریضوں کے ساتھ ان کا رویہ دیکھ کر تو اکثر لوگ یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹروں کے مطالبے کبھی پورے نہ ہوں۔
٭....٭....٭....٭
رمضان سے ایک ماہ قبل ملک بھر میں تاجروں اور دکانداروں نے اپنے ناجائز منافع کماﺅ پیکیج کا آغاز کر دیا۔
یہ ہوتی ہے تاجرانہ ذہنیت تاکہ عوام رمضان کی آمد تک مہنگائی کے عادی ہو جائیں ورنہ تمام اخبارات اور میڈیا میں شور مچ جاتا ہے کہ رمضان کے آتے ہی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ اب ایک ماہ قبل اس منافع خوری پیکیج سے عوام کو رمضان کی آمد تک کی مہنگی اشیاءخریدنے کی عادت پڑ جائیگی اور مہنگائی کیخلاف ان کا شور و غل بھی روزے رکھنے کی وجہ سے کم اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بہت کمزور ہو جائے گا۔ یوں یہ ناجائز منافع خور رمضان کا ثواب کما کما کر اپنی تجوریاں بھریں گے اور عوام جھولیاں اٹھا اٹھا کر انہیں بہت کمزور بددعائیں دینگے۔ حکومت خود اس وقت تاجروں کے ہاتھ میں ہے۔انہیں عوام سے زیادہ اپنے بھائی بندوں اور قبیلے کی فکر رہتی ہے اس لئے ان تاجر حکمرانوں کے سامنے مہنگائی کا رونا رونا فضول ہے۔کیونکہ جن اشیاءکی قیمتیں چڑھتی ہیں انکے کارخانے انہی کے پاس ہیں تو شکوہ کس سے کریں۔ وفاقی وزیر خوراک ہوں یا صوبائی وزیر خوراک یہ سب شاید اپنی خصوصی خوراکوں پر توجہ دینے کیلئے بنائے گئے ہیں ورنہ اخبارات اور میڈیا میں ان کی روزانہ فلاں مارکیٹ میں چھاپہ فلاں منڈی کا دورہ کی تصویریں دیکھ کر تو تاجروں اور دکانداروں کی عقل ٹھکانے آ جانی چاہئے۔مگر ان وزراءکی یہ آنیاں جانیاں صرف حکومت کو بیوقوف بنانے کیلئے ہوتی ہیں۔ جس طرف آنکھ اٹھائیں دوروں اور چھاپوں کے باوجود کسی چیز کی قیمت کم ہوتی نظر نہیں آ رہی اور وزیروں کے بیان آتے ہیں کہ مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کی اجازت نہیں دینگے۔ ان سے اجازت کس نے لینی ہے۔یہ سارا کام تو انکی رضامندی سے ہو رہا ہے۔ اب عوام رمضان کی آمد سے قبل ہی فاقہ کشی کی مشق کرنے پر مجبور ہیں حکمران اور تاجر اپنے پھولے ہوئے پیٹوں پر ہاتھ پھیر پھیر کر ان کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔