اتوار ‘ 26 جمادی الثانی 1438 ھ‘ 26 مارچ 2017ئ
دنیا کے 100خوش باش ملک - پہلے تیس (30) نمبروں میں کوئی مسلم ملک شامل نہیں
خوش باش ہونے کا مطلب اگر یہ ہے کہ اس ملک کے لوگ ہر وقت بتیسی نکالے ہنستے قہقہے لگاتے نظرآئیں تو پھر یقیناً کوئی مسلم ملک اس میں شامل ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ مسلمانوں کے نزدیک سنجیدگی کو فوقیت حاصل ہے۔ ہر وقت کا ہنسنا مسکرانا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ مسلمانوں کو اور دوسرے بہت سے کام ہیں۔ انکے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ ہر وقت ٹھٹھہ مخول کرتے رہیں۔ یوں بھی اس رپورٹ کیمطابق صحت، تعلیم، روزگار، امن و امان جیسی نعمتوں کی فراہمی کی بنیاد پر خوش باش ممالک کی ریٹنگ طے کی جاتی ہے جس کی بنا پر گزشتہ سال ڈنمارک سر فہرست تھا۔ اس برس ناروے سر فہرست ہے۔ تیسرا نمبر سوئٹزرلینڈ کا ہے۔ نجانے کیوں انہی تین ممالک میں وکٹری سٹینڈ پر کھڑے رہنے کی دوڑ لگی رہتی ہے۔ کبھی کوئی کبھی کوئی اوپر نیچے ہوتا ہے۔ کسی اور کو بہت کم یہ وکٹری سٹینڈ پر آنے دیتے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات والے 40ویں نمبر پر آتے ہیں جو کوئی قابل ذکر درجہ نہیں رہا۔ پاکستان 80ویں نمبر پر ہے۔۔افغانستان سے لیکر نائیجریا تک پوری مسلم دنیا افراتفری فساد اور خانہ جنگی کی آگ میں جل رہی ہے۔ اگر دنیا کے پریشان، غمناک ممالک کی فہرست بھی بننے لگے تو شاید ہی کوئی دوسرا ملک صدیوں تک ہم مسلم ممالک کے مقابلے میں وکٹری سٹینڈ پر جگہ بنا سکے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
افغان فوجیوں کے کھانے سے پاکستانی اشیاءخارج کرنے کا حکم
معلوم نہیں اس فیصلے سے افغان فوجی کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اب افغان فوجیوں کو پاکستانی پھل اور گوشت نہیں ملا کریگا۔ مگر افغان حکومت اس خوراک کا کیا کریگی جو 40 برسوں سے کروڑوں افغان کھا رہے ہیں۔ آٹا، چاول، گھی، گوشت، مصالحے، میدہ، سبزیاں، پھل تھوک کے حساب سے پاکستان سے ہی سمگل ہو کر افغانستان جاتے ہیں جو وہاں کے کروڑوں افراد کھاتے ہیں۔ ہم نمک کا ذکر اس لئے نہیں کرتے کہ نمک حرامی جن کی عادت ہو ان کو طعنہ دینے سے کیا ہو گا۔ محسن کشی بھی اس میں شمار ہوتی ہے۔ یہ فری تجارت کے مزے افغانوں نے بہت لوٹ لئے۔ اب اگر حکومت پاکستان نے بارڈر پر سختی کر دی سمگلنگ کا کاروبار بند ہو جائے تو افغان حکومت کو لگ پتہ جائےگا کہ آٹے دال چاول کا بھاﺅ کیا ہے۔بے شک ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں سے افغان یہ اشیاءمنگوا سکتے ہیں مگر اسکی قیمت کا تصور کرکے ہی افغان حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی ہوں گی۔ کوئی وسط ایشیائی اور ایران جیسا ہمسایہ ملک اس طرح کھلے عام سمگل کرنے کی اجازت نہیں دیتا جیسی پاکستان سے تھی۔ اب بیچارے افغان فوجی کینو، کیلے اور بیف کے ذائقے کو ترسیں گے کیونکہ یہ پاکستان سے قدرے ارزاں نرخوں میں وہاں ملتے تھے حالانکہ خود پاکستانی ان کی گرانی سے پریشان رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ریکوڈک منصوبہ! عالمی بنک نے پاکستان کے شواہد قبول کر لئے: اٹارنی جنرل
اسکے باوجود بھی فیصلہ پاکستان کےخلاف دے دیا۔ اب فیصلے کے بعد ہمارے اٹارنی جنرل کی اس منطق کو کون درست تسلیم کرے گا، کون اس پر کان دھرے گا۔ یہ تو وہی بات ہے کہ عدالت سے کسی کو سزا ہو جائے اور مجرم کا وکیل لواحقین کو جتلاتا پھرے کہ دیکھا عدالت نے میرا ایک ایک نکتہ درست تسلیم کیا۔ جناب اصل بات ہوتی ہے کیس جیتنا۔ جب آپکی تمام تر شعلہ بیانی، حقائق نگاری کے باوجود فیصلہ آپ کے خلاف آیا ہے تو آپ کی آنیاں جانیاں کون دیکھے گا۔ افسوس کی بات ہے عالمی یا ثالثی عدالتوں میں ہماری حکومت بنا تیاری کے مہنگے وکیل یا اپنے اٹارنی جنرل کو بھیجتی ہے جو عام طور پر سیاسی و سفارشی ہوتے ہیں۔ اسی لئے وہ اپنی اپنی قابلیت کے باعث عالمی عدالتوں میں جا کر ہمیشہ پاکستان کےخلاف فیصلہ لیکر آتے ہیں اور ملک میں اپنی قابلیت اور دلائل کے حق میں بیانات داغتے ہیں۔ حالانکہ ان عدالتوں میں کیس لڑنے کےلئے اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل وکلا کی ضرورت ہوتی ہے‘ چرب زبان سیاسی ورکروں کی نہیں۔ اب ریکوڈک کیس میں ہماری عالمی سطح پر سبکی ہوئی اور جس کمپنی سے معاہدہ کیا تھا اسے بھاری ہرجانہ بھی دینا پڑےگا۔ جسٹس (ر) افتخار چودھری نے بلوچستان کی حکومت اور آسٹریلوی کمپنی کے درمیان معاہدے کو ملکی مفادات کےخلاف قرار دیکر معطل کیا تھا جس پر یہ کمپنی عالمی عدالت میں گئی اور کیس جیت لیا مگر ہمارے بزرجمہر اب بھی شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے اپنے شواہد تسلیم ہونے کا راگ الاپ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
گائے ذبح کرنیوالے کو سزائے موت دی جائے: راجیہ سبھا میں بل پیش
اتر پردیش میں یوگی راج کے بعد ہندو انتہا پسند کچھ زیادہ ہی سر چڑھنے لگے ہیں۔ مسلمانوں کی بات چھوڑیں جو ہونا ہے وہ ہو گا۔ بھارتی مسلمانوں نے بھی چوڑیاں نہیں پہنیں نہ انہیں دھوتی سنبھالنا پڑےگی۔ وہ اپنا دفاع کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ جنگل میں رہنا ہو تو پھر جنگل کے قانون خود بخود ازبر ہو جاتے ہیں۔ پہلے کون سا بھارتی مسلمان پھولوں کی سیج پر سوتے تھے کہ اب انہیں انگاروں پر لوٹنا پڑے گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی نحوست مسلمانوں سے زیادہ خود بھارتی نچلی ذاتوں اور جانوروں کو سہنا پڑ رہی ہے۔ یہ بی جے پی کی نحوست کا ہی اثر ہے کہ اتر پردیش میں چڑیا گھر کے گوشت خور جانور جن میں چیتے، شیر، تیندوے سرفہرست ہیں گوشت نہ ملنے پر بھوکوں مرنے لگے ہیں۔ فی الحال بھارتی حکومت ان کی فکر کرے‘ مسلمانوں کا کیا ہے‘ گائے نہ سہی بیل بھینس نہ سہی سانڈ کھا کر وہ گزارہ کر لیں گے۔ یہ بھی نہ ملے تو بکرے اور بکریاں موجود ہیں وہ بھی نہ ہوئے تو مرغ، تلور، کبوتر دستیاب ہیں ورنہ سمندر بھرے ہیں مچھلی کو کون روک سکتا ہے خوراک بننے سے۔ مسلمانوں کو گوشت خوری سے کوئی نہیں روک سکتا کوئی نہ کوئی مرغ یا بٹیر ہاتھ آ ہی جائےگا۔ کروڑوں بھارتی دلتوں اور دیگر ذاتوں اور قوموں کا مسلمانوں کے علاوہ بھی کاروبار گوشت سے وابستہ ہے۔ چمڑے کے کاروبار والے کہاں جائینگے۔ وہ تو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ مگر یہ جو گاﺅ ماتا مر جاتی ہیں انکے مردار لاشے کیا ہندو حنوط کرکے گھروں میں سجائیں گے۔