جمعۃالمبارک‘ 22؍ ذیقعد1437ھ‘ 26؍ اگست 2016ء
ضلع غربی کراچی میں پی ٹی آئی ایم کیو ایم سے مل گئی: مسلم لیگ (ن) کا احتجاج
اسے کہتے ہیں سیاست۔ وہ بھی ہمارے سیاستدانوں کی سیاست جو دکھائو سجی تے مارو کھبی پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ کل تک کراچی اتحاد کے نام پر مسلم لیگ (ن) اور دوسری جماعتوں کے ساتھ حلف اٹھانے والی پی ٹی آئی کے فرشتوں کی ٹولی راتوں رات بقول پی ٹی آئی را کے ایجنٹوں کی جماعت ایم کیو ایم کے گلے جا لگی اور ضلع غربی کراچی کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے لئے باہمی سودے بازی کر لی۔ بیچارے کراچی اتحاد کے باقی ساتھی مرزا کی طرح بے خبری میں مارے گئے۔ اس کا بدلہ ن لیگ والوں نے لینا ہی تھا۔ جب پی ٹی آئی کے عمران اسماعیل پریس کانفرنس کے لئے جھومتے جھامتے ڈائس پر آئے تو مسلم لیگ (ن) کے امان اللہ فوراً ان پر جھپٹے اور انہیں خطاب کرنے نہیں دیا اس موقع پر کراچی اتحاد کے باقی مجروحین بھی ساتھ تھے انہوں نے بھی عمران اسماعیل کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان پر چاروں طرف سے غدار ہے غدار کے نعروں کی بوچھاڑ کر دی۔ جس کے بعد انہیں وہاں سے مجبوراً کھسکنا پڑا۔ اب کراچی اتحاد والے…؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
کے مصداق سکتے کی کیفیت میں ہیں کیونکہ ان پر یہ وار پیچھے سے اپنوں نے ہی کیا ہے۔ سچ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا…
…٭…٭…٭…٭…٭…
کراچی: ایم کیو ایم کی دو ٹارگٹ کلر خواتین گرفتار
ٹارگٹ کلرز کی فہرست یوں تو بہت طویل ہے۔ کرائم کی دنیا میں یہ خالصتاً مردانہ قسم کا شعبہ تصور کیا جاتا ہے۔ بس ذرا انگلش موویز میں کبھی کبھار جیمز بانڈز سیریز کی خوبصورت فلموں میں ٹارگٹ کلرز خواتین دکھائی دیتی تھیں۔ جو ہاتھ میں تلوار نہ بھی لیں تو صرف اپنی ادائوں سے ہی دشمنوں کی جان لینے کی صلاحیت بھی رکھتی تھیں۔ ہالی وڈ کی دنیا میں گلیمر ہے ہی ایسا کہ دنیا بھر کے فلمی شائقین ان کے ہاتھوں مقتول ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اب یہ جو دو عدد ٹارگٹ کلرز گرفتار ہوئی ہیں وہ تو ہماری فلمی دنیا ہو یا ادبی دنیا دونوں کے تصورات کے مطابق خاصی بھیانک ہوں گی کیونکہ ہمارے ہاں ٹارگٹ کلرز ہمیشہ بھیانک صورتوں والے ہی ہوتے ہیں۔ اس سے قبل بھی کوئی ڈاکو حسینہ کوئی پھولن دیوی ٹائپ کی ڈکیت یا چوریوں میں ملوث خواتین بھی پکڑی گئی ہیں جو جیلوں میں بند ہیں۔ وہ اس بات کی تصدیق بھی کرتی ہیں۔ اب خطرہ یہ ہے کہ ان استاد خواتین کے جیل جانے کے بعد کہیں یہ قیدی خواتین ان دونوں کو اپنا گُرو بنا کر ان کی چیلیاں نہ بن جائیں۔ جس سے خود جیل کی صورتحال بھی خراب ہو سکتی ہے۔ جیل والے محتاط رہیں۔ ویسے باقی جماعتوں میں بھی ایسی تربیت یافتہ ٹارگٹ کلرز کی موجودگی بعید از امکان نہیں ان پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے…
…٭…٭…٭…٭…٭…
بھارت سے تعلق رکھنے والے ارب پتی ساہوکار سائوجی ڈھولکیا نے اپنے اکیلے بیٹے 21 سالہ درادھا ڈھولکیا کو زندگی کے گر سکھانے کیلئے اپنے بل بوتے پر ایک ماہ گزارنے کے ٹاسک کا ڈھول بجایا ہے۔
بڑے نے چھوٹے ڈھولکیا کی تربیت کیلئے اسے ایک ماہ کا جو ٹاسک دیا یہ کوئی انکشاف اور انوکھی روایت نہیں ہے اس نے اس کہاوت سے فی الحال اعتراز کیا کہ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے۔ ایک چرسی دس کے نوٹ کو گوند لگا کر سیلاب متاثرین کیلئے رکھے فنڈ کے ڈبے سے نوٹ نکال رہا تھا ۔کسی نے اس حرکت پر اسے ملامت کیا تو اس نے ’’تاریخی‘‘ محاورہ ادا کر دیا ’’پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے‘‘ ہمارے ہاں کھانے اور کمانے کے حوالے سے لوگ پائے جاتے ہیں۔ 20 کروڑ کی باپ کی دکان کے آگے نوجوان بھٹے بھون کر بیچ رہا ہوتا ہے۔ ایسی تربیت ہو تو انسان کو پیسے کی قدر ہوتی اور فضول خرچی قریب بھی نہیں پھٹکتی، ایسے لوگ کنجوس نہیں ناپ تول کر خرچ کرنے والے کہلاتے ہیں۔ شیخ رشید کے بارے میں مشہور ہے کہ لال حویلی آنے والے بے تکلف مہمانوں کو کھانا کھلا کر یا چائے پلا کر ان کے کان میں کہتے ہیں جاتے ہوئے باہر ہوٹل والے کو بل دیتے جانا۔ پنڈی میں ہونے والے جلسوں میں شرکت کیلئے لفٹ نہ ملے تو پیدل ہی نکل جایا کرتے تھے اب تو ان کے اردگرد لفٹ ہی لفٹ ہے۔
ڈھولکیا کے اپنے پتر کو خود کما کر کھانے کی نصیحت کا دنیا میں ڈھول بج گیا۔ بہرحال ڈھولکیا بنیاء ہے کچھ دیکھ کر ہی بیٹے کو کندن بنانے کا سوچا ہو گا۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
45ڈگری درجہ حرارت میں بنا پانی پئے 6گھنٹے دھوپ میں کھڑے ہو کر دکھائو۔ قائم علی شاہ کا نوجوانوں کو چیلنج
لوگ تو پہلے ہی شاہ جی کے بارے میں کہتے ہیں یہ حضرت بہت پہنچی ہوئی چیز ہیں۔ ان کا تعلق موجودہ دور سے نہیں یہ ہزاروں سال قبل جنم لینے والی شخصیت ہیں۔ ہر دور میں صاحبان اقتدار سے وابستہ رہے اور صلے میں عہدہ و خلعت پاتے رہے۔
ہمیں اس مبالغہ آرائی پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ شک البتہ ضرور تھا کہ اس عمر میں بھی جوان بن کر رہنا نوجوانوں کی سی پھرتی دکھانا کسی عام بزرگ کے بس کی بات نہیں یہ کوئی بہت ہی بڑے پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ ان کی طرف سے نوجوانوں کو ایسا چیلنج دیا جانا اس بات کی دلیل ہے۔ کہاں یہ ہزاروں برس پرانا جسم جو ہر قسم کی موسمی سختیوں سے بے نیاز ہو چکا ہے کہاں یہ ہمارے ولایتی چوزوں جیسے نوجوان جو پتلی کمر ترچھی ہے کی تصویر بنے ہوتے ہیں، بھلا ان کا کیا مقابلہ شاہ جی سے۔ اتنی گرمی میں تو چیل بھی انڈے چھوڑ دیتی ہے جس میں وہ 6 گھنٹے کھڑا رہنے کا چیلنج دے رہے ہیں۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اگر کہیں شاہ جی خود ہی اپنی یہ کرامت دکھانے موسم گرما میں دھوپ سیکنے کھڑے ہو گئے اور اسی عالم میں عالم جاوداں کو سدھار گئے تو ان کو فوراً ’’ڈھڈا پیر‘‘ تسلیم کر لیا جائے گا اور چند ماہ بعد ان کے مزار پر میلہ بھی سجنے لگے گا…
…٭…٭…٭…٭…٭…