ہفتہ ‘ 25 جمادی الثانی 1438 ھ‘ 25 مارچ 2017ئ
موجودہ حکمران کمیشن والا دھندہ کرتے ہیں، آئندہ وزیراعظم بلاول ہو گا: آصف زرداری
بلاول کے وزیراعظم بننے کی پیشگوئی پوری ہو سکتی ہے، عوام جس طرح اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں بلاول اس پر پورا اترتے ہیں اور پھر زرداری صاحب نے آئندہ کہا ہے، 2018ءکے انتخابات کے نتیجے میں نہیں کہا۔ اب بی اے پاس والی شرط ختم ہو چکی ہے۔ زرداری 2018ءکے الیکشن میں پارٹی کو جتوا کر خود وزیراعظم کیوں نہ بنیں گے۔ بلاول کے ابھی کھیل کود اور سیاست کو سمجھنے کے دن ہیں۔ اپنے ابا حضور کی وزارت عظمیٰ میں انہیں سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا وہ ویسے بھی سیاست سیکھنا چاہتے ہیں۔ اینٹھنے کی طرف توجہ نہیں دیتے یہ کسی اور کا دھندہ ہو گا۔زرداری صاحب صرف سوچ کر ہی نہیں، ناپ تول کر بھی بات کرتے ہیں، اس اصول پر شروع سے کاربند تھے تاہم اس میں پختگی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان کے بعد آئی۔ قبل ازیں ان کے اقوال میں یہ بھی شامل تھا ”میرا ٹھکانہ جیل ہے یا ایوانِ صدر“ کل وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے ایوانِ صدر میں نواز شریف کو کھانا کھلایا تھا۔ اتنے سال بعد کھانا کھلانے کے تذکرے سے لگا جیسے کہہ رہے ہوں، اب بل نکالیں۔ بل یعنی کھانے کے پیسے نکالیں، کَس بَل نہیں، وہ تو سیف الرحمن نے بھی زرداری صاحب کے نکالنے کی کوشش کی تھی مگر جب جیل میں جلادوں کی موجودگی میں آمنا سامنا ہوا تو سیف الرحمن نے روتے ہوئے زرداری صاحب کے پاﺅں پکڑ لئے۔ رو تو وزارت سے جیل جانے پر رہے تھے پاﺅں زرداری اور بینظیر کے خلاف بے بنیاد مقدمات بنانے پر پڑے تھے۔ ان کا یہ ایکشن بینظیر اور زرداری پر کچھ مقدمات کی حقیقت سے پردہ اٹھا گیا۔ سیف الرحمن ایسے بہادر واقع ہوئے تھے بقول کسے جب فوج نے شب خون مارا تو ان کا ”احتساب“ پتلون میں خطا ہو گیا تھا۔ اب وہ لسی بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں۔ پاکستان سے بہت دور قطر میں اپنا آشیانہ بنایا ہے تاکہ پاکستان میں حکمرانوں پر ممکنہ طور پر گرنے والی بجلی سے وہ محفوظ رہیں۔
زرداری صاحب کہتے ہیں موجودہ حکمران صرف کمیشن والا دھندہ کرتے ہیں۔ ان کا بیان لفظ ”موجودہ“ کے بغیر ہوتا تو زیادہ معتبر، مستند اور ٹن سوری‘ ہنڈرڈ پرسنٹ درست ہوتا۔ ایسے لوگ کسی کے کمیشن کے دھندے کی بات کریں تو لامحالہ لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی اور یہ مصرع مچل جاتا ہے....
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں بے ننگ و نام ہے
٭....٭....٭....٭
یوم پاکستان کی تقریب، خواجہ آصف تسبیح پڑھتے رہے
یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ خواجہ آصف کیا ورد کرتے رہے، کیوں کرتے رہے۔ ضروری نہیں کہ ورد کر بھی رہے ہوں، ایسے صاحبان! تسبیح بھی دیکھے ہیں جو دنیاوی باتیں کرتے ہوئے منکے پر منکا بھی پھینک رہے ہوتے ہیں۔ ان کے بارے گمان رکھنا چاہئے کہ ان کا قلب جاری ہوتا ہے۔ بینظیر بھٹو بھی کسی دور میں تسبیح ہاتھ میں رکھتی تھیں۔ پانامہ کیس کے دوران ایک مرتبہ عمران خان بھی تسبیح ہاتھ میں لئے عدالت جا پہنچے تھے۔ خواجہ آصف ہو سکتا ہے دہشت گردی کے حالات میں وزیراعظم اور صدر کے ساتھ سٹیج پر موجودگی میں خود کو اسی خطرے سے دوچار سمجھتے ہوں جو دہشت گردوں سے صدر اور وزیراعظم کو لاحق تھا اور بین السطور ورد کر رہے ہوں جل تو جلال تو آئی بلا ٹال تو۔ پانامہ کیس کا فیصلہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے اگر وہ خلاف آتا ہے یہ بھی کسی بلا سے کم نہیں ہو سکتا۔ خواجہ آصف سیاسی مخالفین کو کیا اس فوج کو بھی تڑی لگانے سے گریز نہیں کرتے جس کی وزارت کا قلمدان ان کے پاس ہے۔ ساتھی وزیروں سے بھی کُٹی کر لیتے ہیں نہ جانے کس واقعہ نے ان کی کایا پلٹ دی ہو کہ تسبیح اپنے پاس رکھنے لگے ہیں۔ اب ان کے سپرد وزارت مذہبی امور کر دی جائے تو زیادہ بہتر ہو گا، وہ حامد سعید کاظمی سے تو اچھے طریقے سے یہ وزارت چلا لیں گے۔ انہوں نے کتنی معصومیت سے وزارت کی کہ ایف آئی اے نے وزارت سے جیل بھجوا دیا تھا اور ان کو انصاف ملنے میں کئی سال لگ گئے۔
٭....٭....٭....٭
عمران بڑے‘ پرویز خٹک چھوٹے شیخ چلی ہیں‘ تبدیلی کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا جارہا ہے : امیر مقام ۔
انتخابات کے موسم میں ہر انتخابی جلسہ ایک شیخ چلی کا جلسہ نظر آتا ہے جس میں وہ بلند بانگ دعوے اور وعدے کرکے عوام کو بے وقوف بنا رہا ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اسکے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ آگیاہو اور وہ ہر مسئلہ پلک جھپکتے حل کر دیگا جبکہ اصل شیخ چلی تو بے چارے عوام بنتے ہیں ‘ جو انکے دعوﺅں پر یقین کر لیتے ہیں اور تصور کر بیٹھتے ہیں کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ نکلیں گی‘ ہر ایک کو روزگار ملے گا‘ انصاف ملے گا‘ بنیادی سہولتیں میسر ہونگی‘ ہر طرف چین ہی چین ہوگا۔ جہاں تک تبدیلی کے نام پر عوام کو دھوکہ دینے کا تعلق ہے تو امیر مقام کا مشرف کا ساتھ دینا اور ان سے پسٹل تحفے میں لینا قصہ پارینہ بن گیا۔ آج جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ بھی توعوام کو سبز باغ دکھا کرہی برسراقتدار آئی ہے۔ سیاست کے میدان میں شیخ چلی چھوٹا ہو یا بڑا‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ بالآخر بدھو عوام ہی بنتے ہیں۔ البتہ سیاست دانوں کی طرف سے جو انتخابی منشور لایا جاتا ہے ‘ وہ دراصل عمل درآمد کیلئے نہیں بلکہ ایک ایسا صراط مستقیم ہے جو انہیں ایوانوں تک لے جاتا ہے۔اسکے بعد یہ منشور عوام کیلئے پل صراط بن جاتا ہے۔ 2018ءالیکشن کا سال ہے‘ انکے ہاتھ میںایک بار پھر الہ دین کا چراغ ہوگا جو عوام کو تصوراتی دنیا یا حسن بن صباح کی جنت کی طرف لے جانے میں انکی مدد کریگا اور یہ فرہاد کی طرح عوام کیلئے نہریں کھودتے نظر آئینگے۔ اب یہ عوام کی قسمت کہ وہ دودھ و شہد کی نہر میں نہاتے ہیں یا چھپڑ کے پانی میں۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے کھلے سمندر میں پاکستان زندہ باد ریلی نکالی جو ایک اچھا اقدام ہے۔ڈی چوک سے فارغ ہو کر سمندر کا رخ کرنا‘انکے عزائم کا پتہ دیتا ہے کیونکہ....
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
اچھی بات ہے ....لیکن ہمیں سمندری مخلوق کی فکر لاحق ہوگئی کیونکہ عوام تو انکی ریلی اور دھرنوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی پہلے خشکی کے محاذ پر فتح حاصل کرے کیونکہ سمندر میں ریلی کے دوران اگر کپتان صاحب نے سمندری مخلوق کی کسی لیکس پر ہاتھ ڈال دیا تو .... !!! دو محاذوں پر لڑنا ان کیلئے خاصا مشکل ہوجائیگا۔