اتوار ‘ 4 ربیع الثانی‘ 1436ھ‘ 25 جنوری 2015ئ
پاکستانی مصوروں، فنکاروں اور گلوکاروں کی امریکہ میں پرفارمنس کی حوصلہ افزائی کریں گے : جلیل عباس!
امریکہ میں پاکستانی سفیر نے امریکہ میں پاکستان کے سافٹ امیج کو نمایاں کرنے کیلئے ہمارے تہذیبی اور ثقافتی رنگ کو اُجاگر کرنے کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے وہ قابل تعریف ہے دنیا بھر میں اپنے ملک کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کیلئے ہر ملک اپنا تہذیبی، ثقافتی اور سماجی رنگ خوبصورت، دلنشیں انداز میں پیش کرتا ہے۔ ہمارا ملک تو قدیم تہذیبوں، خوبصورت وادیوں، فلک بوس پہاڑوں، صحرائی علاقوں، دریاﺅں، جھیلوں کی وجہ سے دنیا بھر میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
مگر چند شرپسندوں نے اس جنت نظیر خطہ کو آگ و خون کے رنگ میں پیش کر کے دنیا بھر میں پاکستانیوں کا امیج خراب کر دیا ہے۔ اب پاکستانیوں کے اصل چہرے کو دنیا کے سامنے بنا سجا کر پہلے کی طرح خوبصورت شکل میں پیش کرنے کےلئے امریکہ میں مقیم ہمارے سفیر نے جو نسخہ پیش کیا ہے۔ وہ قابل تعریف ہے۔
بے شک فنکار اور گلوکار بیرون اپنے ملک کی پہچان ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں کے یہ فنکار اپنے پروموٹرز کے ساتھ مل کر ایسی فنکاریاں دکھاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ عام لوگوں سے پیسے وصول کر کے انہیں طبلہ نواز، سارنگی نواز، ستار نواز، بانسری نواز، رقاص یا رقاصہ حتیٰ کہ خوش آواز گلوکار بنا کر غیر قانونی طور پر بیرون ملک لے جانے کا انسانی سمگلروں والا کاروبار بھی کرتے ہیں یوں ایک ”ٹکٹ“ میں دو مزے لیتے ہیں۔ اب انکی ان فنکاریوں کی وجہ سے بیرون ملک ہمارے ملک کا جو تشخص خراب ہو رہا ہے اس نے بھی ہمارے امیج کو خاصہ متاثر کیا ہے۔ امید ہے کہ اب اصل اور حقیقی فنکاروں کو ہی امریکہ میں اپنے فن کے مظاہرے کی دعوت دینگے جن کی اکثریت واقعی محب وطن اور فن سے محبت کرنے والوں کی ہے۔ بیرون ملک لوگ آج بھی نور جہاں، مہدی حسن، غلام علی، استاد فتح علی اور اب راحت فتح علی، علی ظفر، عاطف اسلم جیسے گلوکاروں، ناہید صدیقی اور شیما کرمانی جیسی فنکاروں کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کئے رہتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کی پہلے بھی بیرون ملک عزت افزائی ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
شاہ عبداللہ کی تعزیت کیلئے جانے کی اجازت دی جائے، مشرف کی وزارتِ داخلہ کو درخواست!
اب بھلا کوئی سابق صدر سے پوچھے کہ حضرت آپ اچھے بھلے باہر بیٹھے تھے، باعزت طریقے سے ہر جگہ آ جا رہے تھے، اپنے بین الاقوامی دوستوں کی ہر خوشی اور غمی میں شامل ہوتے تھے پھر آپ کو کیا پڑی کہ ملک و قوم کی خدمت کے غم میں بے حال بلکہ نڈھال ہو کر وطن واپس تشریف لائے شاید کسی مشیرِ باتدبیر نے دماغ میں ڈالا ہو گا کہ وطن میں لاکھوں پاکستانی آپ کو یاد کر کے روتے ہیں، ملکی مسائل کے حل کیلئے آپ کی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔
بس پھر کیا تھا ہر حکمران کی طرح کان کے کچے مشرف نے بھی بوریا بستر باندھا اور پاکستان آ گئے جہاں عوام تو نہیں حکومت نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور جلد ہی انہیں عملاً نظر بند کر کے رکھا گیا جہاں سے وہ اپنی مرضی سے کہیں آ سکتے ہیں نہ جا سکتے ہیں، رہی عوام کی بات تو بے شک وہ ان کو یاد کرتے ہیں مگر اپنے مسیحا کے طور پر نہیں ایک عوام دشمن حکمران کے طور پر جس نے اندرونی و بیرونی طور پر ملک کو خطرات کی زد میں دھکیل دیا اور اس کی سزا ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔
اب انکی درخواست برائے شرکت تعزیت شاہ عبداللہ کیلئے سعودی عرب روانگی پر وزارت داخلہ کیا ایکشن لیتی ہے یہ تو بعد کی بات ہے پہلے اس بات کی تسلی کون کرائے گا ضمانت کون دے گا کہ جناب مشرف اس بندی خانے سے نکلنے کے بعد دوبارہ ہنسی خوشی واپس اس جیل خانے میں تشریف لے آئینگے۔ ریکارڈ تو یہ ہے کہ پنچھی ایک بار پنجرے سے نکلنے کے بعد واپس نہیں آتے، اگر یہی مشرف جی نے بھی کیا تو یہ جو لاکھوں کروڑوں روپے انکی حفاظت پر ان کے کیس کی سماعت کیلئے خصوصی عدالتوں پر صرف ہوئے ہیں ان کا کیا ہو گا یہ سب کچھ تو اکارت چلا جائے گا۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
بچوں پر پولیس تشدد کیخلاف ہائیکورٹ میں کیس دائر، پولیس نے زخمی بچے کے والد کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرا دیا!
ہماری بہادر پولیس کا سارا زور صرف بے بس عوام اور بے گناہ بچوں پر ہی چلتا ہے جہاں کوئی زبردست قسم کی تگڑی شخصیت سامنے آتی ہے خواہ وہ ڈاکو ہو یا سمگلر، سیاستدان ہو یا چودھری، وڈیرا ہو یا خان، انکے سامنے یہ باوردی پولیس والے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ اب گزشتہ دنوں جب سکول کے بچوں نے اپنے سکول کی بندش کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تو انکے والدین بھی آ پہنچے اور یہ دیکھ کر پولیس کے روایتی قانون پسند خون نے جوش مارا اور وہ لاٹھیاں تھام کر آ گئے میدان میں اور ایک ہی ہلے میں ان معصوم بے گناہ مظاہرین کو منتشر کر دیا، اس دوران کئی بچے زخمی ہوئے اور والدین کو بھی مار پڑی مگر ان میں سے اکثر نے شریف شہری ہونے کا ثبوت دیا اور خاموشی میں ہی عافیت جانی اور اپنے گھروں کی راہ لی۔ مگر ایک زخمی بچے فہد کے والد نے پولیس تشدد کے خلاف پولیس کو ہی درخواست دینے کی ٹھانی، تو اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کےلئے پولیس والوں نے اس کو ایسی پٹی پڑھائی کہ وہ کانوں کا ہاتھ لگاتا ہوا اپنی درخواست سمیت توبہ تائب ہو کر اندرون شہر کی گلیوں میں غائب ہو گیا اور اپنا موبائل فون بھی بند کر دیا۔ علاقہ کے ایم این اے اور ایم پی اے شاید ایسے معاملات میں دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ یہ عوام اور پولیس کا معاملہ ہے اور انہیں عوام سے زیادہ پولیس کی ضرورت رہتی ہے۔ رہی بات سکول اور تعلیم کی تو یہ حکومت پنجاب کا مسئلہ ہے ورنہ ”پڑھا لکھا پنجاب“ کا نعرہ لگانے والوں کے دور میں طالب علموں کے ساتھ ایسا مربیانہ سلوک ہرگز نہ ہوتا۔ اب دیکھنا ہے عدالت میں کیس کے بعد کون سامنے آتا ہے مگر ایک بات طے ہے اب علاقہ کے ایم این اے اور ایم پی اے بادل نخواستہ روتے بسورتے ہوئے بچوں اور تعلیم کے حق میں اونگے بونگے بیانات ضرور دینگے۔ مگر زخمی بچہ اور اس کا والد شاید بابا عبیرابوذرکے نظریات پر عمل کرتے ہوئے سامنے ہی نہ آئیں۔
پلس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کیہہ
٭۔٭۔٭۔٭۔٭