ہفتہ ‘ 27 جمادی الاوّل 1438 ھ ‘25 فروری 2017ئ
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ آج کل البانیہ کا شاہ زوغو‘ بلغاریہ کی ملکہ جوآنا، اٹلی کا شاہ عمانوئیل‘ رومانیہ کا شاہ مائیکل‘ یوگو سلاویہ کا شاہ پیٹر‘ افغانستان کا شاہ امان اللہ اور برطانیہ کا شاہ ایڈورڈ ہشتم تاج وتخت سے محروم دوسرے ملکوں میں جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور ان میں سے اکثر اپنے آپ کو ”مفلس اور بے روزگار“ کہتے ہیں۔
ہمارے ”بے تاج بادشاہ“ حضرت مفرور الملت بھی تخت شاہی سے محروم کر دیئے گئے لیکن خدا کا شکر ہے کہ انہیں جلا وطنی کا صدمہ برداشت نہیں کرنا پڑا اور نہ وہ اپنے آپ کو مفلس یا بے روزگار ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ خدا کے فضل وکرم سے الاٹ منٹوں سے اس حد تک جھولی بھر چکی ہے کہ ”بے تاج بادشاہ“ کی اولاد بھی آرام سے اس ”وظیفے“ پر گزارا کرسکے گی۔ (14اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
پاکستان پارلیمان میں ”جی حضوری“ ممبروں کی اکثریت کی وجہ سے دوران اجلاس میں کوئی نوک جھونک نہیں ہوتی اور کوئی تجویز بعد میں پیش ہوتی ہے اور چودھری خلیق الزمان کے استعفیٰ کی طرح منظور پہلے کرلی جاتی ہے۔ لے دے کے خان لیاقت علی خاں اور میاں افتخارالدین کا دم غنیمت ہے جن کے درمیان کچھ نوک جھونک ہو جاتی ہے اور پارلیمان کی کارروائی پڑھنے میں کچھ لطف آجاتا ہے ورنہ پارلیمان کی کارروائی پڑھ کر اکثر پنجاب اسمبلی کے سابق ارکان ملک برکت علی مرحوم‘ ڈاکٹر نارنگ‘ راجہ غضنفر علی خاں‘ شیخ کرامت علی کے علاوہ چچا بہاول بخش اور میجر فرمان علی خاں ایسے دلچسپ بزرگ بھی یاد آجاتے ہیں جو کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے کہ ”ووٹ بیچا ہے ایمان نہیں“ اور اب تو ووٹ اور ایمان کے ساتھ ساتھ ضمیر بھی بحیرہ عرب میں بہہ گیا ہے۔ (14اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
بات میاں افتخار الدین اور خان لیاقت علی خاں کی ہو رہی تھی۔ کل میاں صاحب نے مہاجرین کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ”مہاجرین کے سیلاب کی آمد کے وقت پنجاب میں زمینداریوں کو ختم کر دینا چاہیے تھا۔“
وزیراعظم نے فرمایا کہ ”میاں صاحب اس بات سے واقف ہیں کہ ان اصلاحات کا تعلق صوبائی حکومتوں سے ہے اور اس وقت پنجاب میں ایک عوامی حکومت برسر اقتدار تھی، جس میں میاں افتخار الدین اور انکے دست راست سردار شوکت حیات بھی شامل تھے۔“
میاں صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ”صرف چھ ہفتے کے لئے“ وزیراعظم نے فوراً جواب دیا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ میاں صاحب جیسی قوت عمل رکھنے والا اور غیر ذمہ دار آدمی چھ گھنٹوں میں اس کام کو کرسکتا تھا جس کا وہ آج پرچار کر رہے ہیں۔“
میاں صاحب خاموش بیٹھنے والے تو نہیں ہیں لیکن خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ میاں صاحب نے اس کا کیا جواب دیا۔ (14اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
ہر ملک میں اسمبلی یا پارلیمانی میں ”جی حضوری“ ممبر ہوتے ہیں لیکن پاکستانی پارلیمان میں ایسے ”برخوردار“ قسم کے اراکین ہیں جو کہیں نہیں دیکھے۔ جہاں اراکین کی اکثریت کا ایمان ہے کہ کسی پر رائے زنی کرنے یا ایک لفظ بھی بولنے سے تنخواہ حرام ہو جائے گی اور ہم عوام کی نمائندگی کرنے کے اہل نہیں رہیں گے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان داتا بخششیں دینے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ انتخاب یا نامزدگی کا امیدوار کانوں سے نہیں سنتا، آنکھوں سے نہیں دیکھتا اور زبان سے نہیں بولتا ہے۔ (14اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
لاہور کے دو درجن اخبارات اپنی فرض شناس کارپوریشن کے کارنامے دن رات اپنے صفحات پر چھاپتے رہتے ہیں۔ نثر میں بھی اور نظم میں بھی لیکن ناشکری کی انتہا ہے کہ کارپوریشن اب ایک پبلسٹی افسر مقرر کر رہی ہے جس کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ کارپوریشن کا پراپیگنڈا اور پبلسٹی کیا کرے۔
اخبارات تو غریب پہلے ہی پبلسٹی کر رہے ہیں۔ پبلسٹی آفیسر صاحب لاﺅڈ سپیکر کے ذریعے تو پراپیگنڈا کرنے سے رہے کیونکہ اب یہ جرم ہے‘ اگر ایسا کریں گے تو جعفری صاحب بڑے گھر بھیج دیں گے پھر آخر پبلسٹی آفیسر صاحب کیا کریں گے؟ ڈھول بجانا بھی منع ہے۔ لاہور کی سڑکوں کا گردوغبار‘ ان کے گڑھے‘ چھوٹے چھوٹے جوہڑ‘ مچھر اور نالیوں کی بدبو ہی سے یہ کام آسانی سے ہو رہا ہے۔ آخر مزید سرمایہ ضائع کرنے کا فائدہ؟ (14اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
حیدرآباد سندھ کے ایک جلسہ میں کسی شخص عبدالحلیم افغانی نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ لیگ کے صدرِ محترم جناب نوابزادہ لیاقت علی خان کو قائدِ ملت کا خطاب دیا جائے۔
خدا جانے اس میں کیا مصلحت تھی مگر خبررساں ایجنسی نے اس رپورٹ کی خوب تشہیر کی ہے۔ قائدِ ملت کا خطاب عامِ طور چوہدری غلام عباس صدر کشمیر مسلم کانفرنس کے نام کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور کانفرنس کے کارکن تو انہیں اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ خدا خیر ہی کرے اگلا قدم کہیں یہ نہ ہو کہ چونکہ مسلم کانفرنس کی تنظیم کو مضبوط تر بنانا مقصود ہے لہٰذا مسٹر لیاقت علی خاں سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کی صدارت قبول کر لیں اور صاحبِ موصوف قوم کی خدمت کے پیش نظر یہ درخواست بھی منظور فرمالیں۔ (18اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
مرکزی حکومت نے پنجاب کے مصیبت زدگان سیلاب کی امداد کے لئے ایک کروڑ روپیہ کی رقم خطیر منظور کی ہے۔ پنجاب کے بعض رہنماﺅں اور اخبارات نے لکھا ہے کہ نقصان کا اندازہ تیس پینتیس کروڑ سے ستر اسی کروڑ تک ہے اس لئے یہ ایک کروڑ کی امداد تو مصیبت زدگان کی اشک شوئی کی حیثیت بھی نہیں رکھتی مگر سرکاری لیگ کے صدر صو فی عبدالحمید صاحب نے مرکزی حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے کہ اس نے یہ امدادی رقم منظور فرما کر پنجاب پر احسان عظیم کیا۔ ہماری اپنی رائے میں بھی صوفی صاحب ہی سچے ہیں۔ روپے کی کیا بات ہے نیت دیکھنی چاہیے۔ 30 کروڑ یا 70 کروڑ نقصان کے مقابلہ پر ایک کروڑ کی امدادی رقم کی واقعی کوئی حیثیت نہیں مگر بہرحال یہ بھی ایک احسان ہے اور اس کا شکریہ واجب ہے۔ ایک کروڑ تو ایک کروڑ ہے اگر صرف ایک لاکھ روپیہ ہی منظور کیا جاتا تو بھی صوفی عبدالحمید صاحب شکریہ ہی ادا کرتے اور ہم بھی یہی لکھتے کہ صوفی صاحب راستی پر ہیں اور معترضین کے سب اعتراض غلط ہیں۔(18اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے لیگ ٹکٹ مرکز بانٹے گا۔ مرکزی لیگ کے اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب کی سرکاری لیگ کے ”ذہین“ لیڈر یعنی ماسٹرجی نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ ”یہ امر ذہن نشین ہونا چاہیے کہ پاکستان کے ہر انتخاب میں لیگ ٹکٹ دینے کے متعلق آخری فیصلہ دینے کا مجاز مرکزی پارلیمانی بورڈ ہی ہے۔ صوبے کے تمام پارلیمانی بورڈ مرکزی بورڈ کی شاخوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مرکزی بورڈ نے صوبائی بورڈوں کے حقوق میں مداخلت کی ہے بلکہ یہ فیصلہ تو اختیارات کے براہ راست استعمال کی حیثیت رکھتا ہے“۔
امید ہے کہ نکتہ چین ذہانت کے اس مظاہرے کے بعد قائل ہو جائیں گے اب مرکز کو چاہیے کہ اپنے اختیارات کو براہ راست استعمال کرتے ہوئے پوری پنجاب اسمبلی ہی نامزد کر دے اور پنجابیوں کو انتخابات کی زحمت سے بچا لے۔(18اکتوبر 1950)
ہفتہ ‘ 27 جمادی الاوّل 1438 ھ ‘25 فروری 2017ئ
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ آج کل البانیہ کا شاہ زوغو‘ بلغاریہ کی ملکہ جوآنا، اٹلی کا شاہ عمانوئیل‘ رومانیہ کا شاہ مائیکل‘ یوگو سلاویہ کا شاہ پیٹر‘ افغانستان کا شاہ امان اللہ اور برطانیہ کا شاہ ایڈورڈ ہشتم تاج وتخت سے محروم دوسرے ملکوں میں جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور ان میں سے اکثر اپنے آپ کو ”مفلس اور بے روزگار“ کہتے ہیں۔
ہمارے ”بے تاج بادشاہ“ حضرت مفرور الملت بھی تخت شاہی سے محروم کر دیئے گئے لیکن خدا کا شکر ہے کہ انہیں جلا وطنی کا صدمہ برداشت نہیں کرنا پڑا اور نہ وہ اپنے آپ کو مفلس یا بے روزگار ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ خدا کے فضل وکرم سے الاٹ منٹوں سے اس حد تک جھولی بھر چکی ہے کہ ”بے تاج بادشاہ“ کی اولاد بھی آرام سے اس ”وظیفے“ پر گزارا کرسکے گی۔ (14اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
پاکستان پارلیمان میں ”جی حضوری“ ممبروں کی اکثریت کی وجہ سے دوران اجلاس میں کوئی نوک جھونک نہیں ہوتی اور کوئی تجویز بعد میں پیش ہوتی ہے اور چودھری خلیق الزمان کے استعفیٰ کی طرح منظور پہلے کرلی جاتی ہے۔ لے دے کے خان لیاقت علی خاں اور میاں افتخارالدین کا دم غنیمت ہے جن کے درمیان کچھ نوک جھونک ہو جاتی ہے اور پارلیمان کی کارروائی پڑھنے میں کچھ لطف آجاتا ہے ورنہ پارلیمان کی کارروائی پڑھ کر اکثر پنجاب اسمبلی کے سابق ارکان ملک برکت علی مرحوم‘ ڈاکٹر نارنگ‘ راجہ غضنفر علی خاں‘ شیخ کرامت علی کے علاوہ چچا بہاول بخش اور میجر فرمان علی خاں ایسے دلچسپ بزرگ بھی یاد آجاتے ہیں جو کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے کہ ”ووٹ بیچا ہے ایمان نہیں“ اور اب تو ووٹ اور ایمان کے ساتھ ساتھ ضمیر بھی بحیرہ عرب میں بہہ گیا ہے۔ (14اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
بات میاں افتخار الدین اور خان لیاقت علی خاں کی ہو رہی تھی۔ کل میاں صاحب نے مہاجرین کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ”مہاجرین کے سیلاب کی آمد کے وقت پنجاب میں زمینداریوں کو ختم کر دینا چاہیے تھا۔“
وزیراعظم نے فرمایا کہ ”میاں صاحب اس بات سے واقف ہیں کہ ان اصلاحات کا تعلق صوبائی حکومتوں سے ہے اور اس وقت پنجاب میں ایک عوامی حکومت برسر اقتدار تھی، جس میں میاں افتخار الدین اور انکے دست راست سردار شوکت حیات بھی شامل تھے۔“
میاں صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ”صرف چھ ہفتے کے لئے“ وزیراعظم نے فوراً جواب دیا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ میاں صاحب جیسی قوت عمل رکھنے والا اور غیر ذمہ دار آدمی چھ گھنٹوں میں اس کام کو کرسکتا تھا جس کا وہ آج پرچار کر رہے ہیں۔“
میاں صاحب خاموش بیٹھنے والے تو نہیں ہیں لیکن خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ میاں صاحب نے اس کا کیا جواب دیا۔ (14اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
ہر ملک میں اسمبلی یا پارلیمانی میں ”جی حضوری“ ممبر ہوتے ہیں لیکن پاکستانی پارلیمان میں ایسے ”برخوردار“ قسم کے اراکین ہیں جو کہیں نہیں دیکھے۔ جہاں اراکین کی اکثریت کا ایمان ہے کہ کسی پر رائے زنی کرنے یا ایک لفظ بھی بولنے سے تنخواہ حرام ہو جائے گی اور ہم عوام کی نمائندگی کرنے کے اہل نہیں رہیں گے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان داتا بخششیں دینے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ انتخاب یا نامزدگی کا امیدوار کانوں سے نہیں سنتا، آنکھوں سے نہیں دیکھتا اور زبان سے نہیں بولتا ہے۔ (14اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
لاہور کے دو درجن اخبارات اپنی فرض شناس کارپوریشن کے کارنامے دن رات اپنے صفحات پر چھاپتے رہتے ہیں۔ نثر میں بھی اور نظم میں بھی لیکن ناشکری کی انتہا ہے کہ کارپوریشن اب ایک پبلسٹی افسر مقرر کر رہی ہے جس کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ کارپوریشن کا پراپیگنڈا اور پبلسٹی کیا کرے۔
اخبارات تو غریب پہلے ہی پبلسٹی کر رہے ہیں۔ پبلسٹی آفیسر صاحب لاﺅڈ سپیکر کے ذریعے تو پراپیگنڈا کرنے سے رہے کیونکہ اب یہ جرم ہے‘ اگر ایسا کریں گے تو جعفری صاحب بڑے گھر بھیج دیں گے پھر آخر پبلسٹی آفیسر صاحب کیا کریں گے؟ ڈھول بجانا بھی منع ہے۔ لاہور کی سڑکوں کا گردوغبار‘ ان کے گڑھے‘ چھوٹے چھوٹے جوہڑ‘ مچھر اور نالیوں کی بدبو ہی سے یہ کام آسانی سے ہو رہا ہے۔ آخر مزید سرمایہ ضائع کرنے کا فائدہ؟ (14اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
حیدرآباد سندھ کے ایک جلسہ میں کسی شخص عبدالحلیم افغانی نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ لیگ کے صدرِ محترم جناب نوابزادہ لیاقت علی خان کو قائدِ ملت کا خطاب دیا جائے۔
خدا جانے اس میں کیا مصلحت تھی مگر خبررساں ایجنسی نے اس رپورٹ کی خوب تشہیر کی ہے۔ قائدِ ملت کا خطاب عامِ طور چوہدری غلام عباس صدر کشمیر مسلم کانفرنس کے نام کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور کانفرنس کے کارکن تو انہیں اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ خدا خیر ہی کرے اگلا قدم کہیں یہ نہ ہو کہ چونکہ مسلم کانفرنس کی تنظیم کو مضبوط تر بنانا مقصود ہے لہٰذا مسٹر لیاقت علی خاں سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کی صدارت قبول کر لیں اور صاحبِ موصوف قوم کی خدمت کے پیش نظر یہ درخواست بھی منظور فرمالیں۔ (18اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
مرکزی حکومت نے پنجاب کے مصیبت زدگان سیلاب کی امداد کے لئے ایک کروڑ روپیہ کی رقم خطیر منظور کی ہے۔ پنجاب کے بعض رہنماﺅں اور اخبارات نے لکھا ہے کہ نقصان کا اندازہ تیس پینتیس کروڑ سے ستر اسی کروڑ تک ہے اس لئے یہ ایک کروڑ کی امداد تو مصیبت زدگان کی اشک شوئی کی حیثیت بھی نہیں رکھتی مگر سرکاری لیگ کے صدر صو فی عبدالحمید صاحب نے مرکزی حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے کہ اس نے یہ امدادی رقم منظور فرما کر پنجاب پر احسان عظیم کیا۔ ہماری اپنی رائے میں بھی صوفی صاحب ہی سچے ہیں۔ روپے کی کیا بات ہے نیت دیکھنی چاہیے۔ 30 کروڑ یا 70 کروڑ نقصان کے مقابلہ پر ایک کروڑ کی امدادی رقم کی واقعی کوئی حیثیت نہیں مگر بہرحال یہ بھی ایک احسان ہے اور اس کا شکریہ واجب ہے۔ ایک کروڑ تو ایک کروڑ ہے اگر صرف ایک لاکھ روپیہ ہی منظور کیا جاتا تو بھی صوفی عبدالحمید صاحب شکریہ ہی ادا کرتے اور ہم بھی یہی لکھتے کہ صوفی صاحب راستی پر ہیں اور معترضین کے سب اعتراض غلط ہیں۔(18اکتوبر 1950)
٭....٭....٭....٭
پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے لیگ ٹکٹ مرکز بانٹے گا۔ مرکزی لیگ کے اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب کی سرکاری لیگ کے ”ذہین“ لیڈر یعنی ماسٹرجی نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ ”یہ امر ذہن نشین ہونا چاہیے کہ پاکستان کے ہر انتخاب میں لیگ ٹکٹ دینے کے متعلق آخری فیصلہ دینے کا مجاز مرکزی پارلیمانی بورڈ ہی ہے۔ صوبے کے تمام پارلیمانی بورڈ مرکزی بورڈ کی شاخوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مرکزی بورڈ نے صوبائی بورڈوں کے حقوق میں مداخلت کی ہے بلکہ یہ فیصلہ تو اختیارات کے براہ راست استعمال کی حیثیت رکھتا ہے“۔
امید ہے کہ نکتہ چین ذہانت کے اس مظاہرے کے بعد قائل ہو جائیں گے اب مرکز کو چاہیے کہ اپنے اختیارات کو براہ راست استعمال کرتے ہوئے پوری پنجاب اسمبلی ہی نامزد کر دے اور پنجابیوں کو انتخابات کی زحمت سے بچا لے۔(18اکتوبر 1950)