سکھر سول ہسپتال میں 10 ایم ایس تعینات ہونے کا انکشاف!
یہ ہے عوام کی خدمت اور حقیقی ترقی کا عملی ثبوت۔ ایک ہسپتال میں مریضوں کی خدمت کے لئے دس ایم ایس شاہ جی زندہ باد!۔ کیا کوئی اور صوبہ سندھ کی اس عوام دوست حکومت کی ذرا بھر بھی برابری کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ کہاں ہسپتالوں میں سینکڑوں مریضوں کے لئے ایک ڈاکٹر دستیاب نہیں اور کہاں ایک ہسپتال میں 10 ایم ایس۔ یہ خبر پڑھ کر بلاول صاحب تو بہت خوش ہوئے ہوں گے کہ ایسا ماحول تو پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ اس لحاظ سے تو صوبہ سندھ ترقی کے اعلیٰ ترین مدارج پر ہے۔ اب خورشید شاہ البتہ حیران و پریشان پھر رہے ہوں گے کیونکہ گزشتہ روز جب سول ہسپتال سکھر کا عملہ شکایات کے انبار لے کر ان کے پاس آیا کہ ہسپتال کے کام ٹھپ پڑے ہیں کس کو ایم ایس مانیں کس کا حکم مانیں ہر ایم ایس اپنی مرضی سے کام چلا رہا ہے تو وہ بھی چکرا گئے ہوں گے کہ یہ عجوبہ روزگار تعیناتیاں کس نے کی ہیں۔ویسے انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اس وقت پیپلز پارٹی کے بھی 3 چیئرمین ہیں ایک بزرگ رہبر آصف زرداری، دوسرا نوجوان قائد بلاول زرداری اور تیسری شریک چیئرپرسن فریال تالپور، اب کیا پتہ انہی تینوں نے ایک ایک ایم ایس اور باقی وزیر صحت، مشیر صحت و سیکرٹری صحت ڈی جی صحت نے بھی ایک ایک ایم ایس تعینات کیا ہو اسی وجہ سے سکھر ہسپتال میں ایم ایسوں کا میلہ لگا ہوا ہے۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
مخصوص ٹولے نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے، سراج الحق کا اجتماع سے خطاب!
امیر جماعت اسلامی نے بات تو درست کی ہے۔ ملک میں کیا مخصوص ٹولوں نے ہر ایک ادارے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ عبادت ہو یا تجارت ، حکومت ہو یا سیاست ہر جگہ مخصوص ٹولے کے لوگ اپنے سوا باقی سب کو مکار، غدار اور نجانے کیا کیا کہتے نظر آئیں گے۔ سیاستدان تو ہیں ہی بدنام پورے ملک میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جے یو آئی کے بعد اگر کسی کا ڈنکا بجتا ہے تو وہ ہے تحریک انصاف جس نے اپنے سے پہلے سیاست پر قابض ان ٹولوں کی اجارہ داری کیخلاف اعلان جنگ کیا اور ایک نئے نظام اور پاکستان کا ڈنکا بجایا مگر افسوس وہ بھی بہت جلد مخصوص ٹولے میں شامل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ مخصوص ٹولہ صنعتی و زرعی معاملات کو کنٹرول کئے ہوئے ہے انکی مرضی کے بغیر نہ صنعت کا پہیہ چل سکتا ہے نہ زراعت کا یہی دھرتی کے ان داتا بنے بیٹھے ہیں۔ رہی بات عبادت کی تو اس میں بھی ہر مسلک نے اپنی اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے ان کی مرضی کے بغیر کوئی مسلمان جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جب ہر طرف سے ہر ٹولے نے ملک کے ہر ادارے کو یرغمال بنا رکھا ہو تو اس کیخلاف اعلان بغاوت کیوں نہیں ہوتا، ہم خود اس نظام اور یرغمالی ٹولوںکے دست و بازو کیوں بنتے ہیں۔ جب ہم خود اس یرغمالی ٹولے کے ساتھ ملے ہوں تو ملک کو ان یرغمال بنانے والوں سے نجات کون دلائے گا۔ سراج الحق صاحب یاد رکھئے … ع
’’بدلی جاتی ہے بدلتی نہیں تقدیر کبھی‘‘
…٭…٭…٭…٭…٭…
ڈائریکٹر آپریشن فوڈ اتھارٹی عائشہ ممتاز کو تبدیل کر دیا گیا!
ہم یہ نہیں کہتے کہ عائشہ ممتاز کوئی سپر وویمن ہیں وہ بھی ایک عام انسان اور سرکاری ملازم ہیں۔ انہوں نے بے شک کوئی تیر نہیں مارا مگر کم از کم خوراک کے نام پر ملاوٹ شدہ ناقص زہر کھلانے والوں کیخلاف عوامی رائے عامہ کو تو ضرور بیدار کر دیا ہے۔ حکومت خود سوچے یہ جگہ جگہ دودھ، دہی اور کھانے پینے کے ہوٹل کہاں سے برساتی کھمبیوں کی طرح اُگ آئے ہیں جہاں خوراک کے نام پر یہ مُردار زہر عوام کو پیسوں کے عوض کھلا رہے ہیں کوئی تو ہو جو اس مکروہ کاروبار کرنے والوں پر ہاتھ ڈالے۔ یہ جو جگہ جگہ کھانے پینے کے نام پر کاروبار کرنے والے یکدم دیکھتے ہی دیکھتے موٹی موٹی مالدار آسامیاں بن گئی ہیں ان پر یہ دولت کی برسات کہاں سے ہو رہی ہے۔ یہ سب اسی دو نمبر مرچ مصالحوں، ملاوٹ شدہ آٹا، دال چاول اور مُردار جانوروں کے گوشت کے علاوہ گندے پاؤڈر اور اجزا سے تیار شدہ دودھ کی مہربانیاں ہیں کہ اندھا دھند ہُن ان پر برس رہا ہے ورنہ پہلے کوئی دودھ والا، پرچون والا، گوشت والا گاڑیوں میں کب نظر آتا تھا اب تو ریڑھوں اور ہاتھ گاڑیوں کی جگہ ڈالے اور پک اپ آ گئے ہیں یہ سب اسی دو نمبری کی کرامات ہیں۔ نئی ڈائریکٹر فوڈ اتھارٹی ذرا اکبری منڈی کی ہی خبر لے لے ہزاروں ملاوٹ خور وہاں سے ہی ایسے پکڑے جائیں گے جس طرح روزوں میں روزہ خور ریلوے سٹیشن کے باہر پردہ دار ہوٹلوں سے پکڑے جاتے ہیں۔یا نشئی قبرستانوں سے…
…٭…٭…٭…٭…٭…
ایسی ترقی قبول نہیں جس سے بلوچ قوم کا استحصال ہو : اختر مینگل!
بلوچستان کے ایک بڑے اور اہم سیاستدان ہونے کے ناطے ہم اختر مینگل کا احترام کرتے ہیں۔ وہ بلوچستان کے حقوق کی بات دبنگ لہجے میں کرتے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے سردار صاحبان نے ہی ہمیشہ بلوچ عوام کی ترقی کی راہ کھوٹی کی اور ان کا استحصال کیا۔ اگر یہ سردار صاحبان رکاوٹیں نہ ڈالتے اپنے حصہ کے نام پر بھتہ وصول نہ کرتے تو آج سیندک، ریکوڈک، چراٹ سیمنٹ اور ہرنائی وولن ملز جیسے منصوبے یوں حسرت و یاس کی تصویر بنے نہ ہوتے۔ بلوچ علاقوں میں سڑکوں، تعلیمی اداروں اور صنعتی مراکز کا جال بچھا ہوتا۔ ایسا اگر نہیں ہو سکا تو اسکی وجہ یہی ذاتی حاکمیت و ملکیت کا ضامن بھوت ہے۔
اب سی پیک کی بدولت جو ترقی کی شاہراہ بلوچستان سے نکل کر پورے ملک کو خوشحالی کا پیغام دے رہی ہے۔ اگر اس منصوبے کو ہی ایمانداری سے مکمل ہونے دیا جائے تو گوادر تا خنجراب ایک نئے مستقبل کا منظر نامہ ہو گا۔اختر مینگل صاحب آپ بااثر ہیں حکومت پر زور ڈالیں کہ بلوچ علاقوں میں اس شاہراہ کے ساتھ صنعتی علاقے بنائے، بجلی گھر بنائے، تجارتی مراکز بنائے جہاں بلوچ عوام کو عزت اور روزگار دونوں ملیں۔ کوئی اور یہاں کیوں آئے خود بلوچوں کو یہاں کے کام سو نپیں، استحصال کا درواز خود بخود بند ہو جائے گا۔
…٭…٭…٭…٭…٭…