منگل ‘16 ؍ شعبان المعظم 1437ھ‘ 24 ؍ مئی‘ 2016ء
امریکہ نے ویت نام سے اسلحہ کی خریداری پر پابندی اٹھا لی۔
زندہ باد امریکہ! جہاں جہاں بھی امریکہ کو میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے، تمام تر حشر سامانیوں کے بعد بستیوں کی بستیاں اجاڑنے کے بعد بھی مایوس لوٹنا پڑتا ہے۔ بالآخر انہی ملکوں پر صاحب بہادر کو پیار آ ہی جاتا ہے۔ اسکی زندہ مثال ویت نام اور افغانستان کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ 40 سال بعد بالآخر پھر امریکہ اسی ویت نام کی محبت میں ریشہ خطمی ہورہاہے جہاں سے اسے دم دبا کر بھاگنا پڑا تھا۔ اب عرصہ دراز سے اس پر عائد اسلحہ کی پابندیاں بھی ختم کردی گئی ہیں۔ یہ دراصل اوباما کی طرف سے دورئہ ویت نام پر اسے محبت کی پہلی سلامی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ امریکی ہتھیاروں اور ڈالروں کی کھیپ اب کس طرح ویت نام کا رخ کرتی ہے۔ افغانستان کو بھی پہلے روندا، جب وہ کچلا نہ گیا تو وہاں کٹھ پتلی حکومت قائم کرکے اپنے فوجی تک تعینات کئے اور کھل کر افغانستان کی فوجی امداد جاری ہے۔ ان حالات میں ایک لے دے کر ہم وہ بدنصیب رہ گئے ہیں جنہوں نے امریکہ سے دوستی بھی کی، محبت بھی نبھائی مگر اس کا صلہ جو مل رہا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں معاہدے کے مطابق ملنے والا اسلحہ بھی نہیں دیا جارہا۔ صرف یہی نہیں اپنے اس سچے دوست اور مخلص محبوب پاکستان کے ازلی مخالف اور دشمن بھارت سے امریکہ پیار کی پینگیں بڑھاتا چلا جارہا ہے۔ حالانکہ اس نے سردجنگ میں کھل کر روس کا ساتھ دیا۔ مگر کیا کریں امریکہ کو بے وفا ہی راس آتے ہیں۔ کسی نے سچ کہا تھا؎
ہم باوفا تھے اس لئے نظروں سے گر گئے
شاید انہیں تلاش کسی بے وفا کی تھی
…٭…٭…٭…٭…٭ …
مشرف کی اسلام آباد کی رہائشگاہ پر اشتہاری کا نوٹس آویزاں
اشتہاری کی واپسی کا مسئلہ تو بعد میں بھی حل ہو سکتا ہے مگر ذرا اشتہاری کے ضامنوں کی بھی تو خبر لی جائے جن کی ضمانت ملزم باہر گیا تھا۔ اس وقت تو بڑے بڑے نجیب الطرفین قسم کے لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے ملزم مشرف کو جب چاہیں گے کان سے پکڑ کر عدالت میں پیش ہونے کے لیے لے آئیں گے۔ مشرف کے وکیل بھی عدالتی احکامات کی بجا آوری کا یقین دلاتے نہیں تھکتے تھے۔ اب ان کی زبانوں پر تالے کیوں پڑ گئے ہیں۔ وہ سید پرویز مشرف ولد سید مشرف الدین ساکنہ اسلام آباد کو لے کر پیش کیوں نہیں ہو رہے۔ جنکے گھر کے باہر اب اشتہاری کا نوٹس بھی لگ چکا ہے۔ عدالت اب دیر نہ لگائے ضامنوں کو اگلی پیشی پر مشرف کی جگہ اندر کرے۔ جب تک مشرف بازیاب نہیں ہوتے انہیں پابند رکھا جائے۔پرویز مشرف تو اس وقت لندن میں اپنے اہلخانہ کے ساتھ ہنستے ہوئے اپنی اسلام آباد کی رہائشگاہ پر چسپاں عدالتی حکم دیکھ رہے ہوں گے۔ اب خالی گھر سے تو مشرف برآمد نہیں ہو سکتے۔ سات سمندر پار سے کوئی ایسا جن بھی کسی کے پاس نہیں جس کے حکم پر وہ مشرف کو راتوں رات اٹھا کر پابجولاں عدالت میں پیش کرے۔ فی الحال تو مشرف کو محفوظ راستہ دینے والوں کو فکر ہونے لگی ہوگی کہ کہیں اب ان کو لینے کے دینے نہ پڑ جائیں…
…٭…٭…٭…٭…٭ …
وزیر اعظم میاں نواز شریف طبی معائنہ کے لیے لندن پہنچ گئے
ابھی انہیں لندن سے طبی معائنہ کراکے آئے ہوئے وقت ہی کتنا ہوا تھا کہ ایک بار پھر انہیں علاج کے لئے لندن جانا پڑا رہا ہے۔ یہ عجب بات ہے جونہی ملک میں سیاسی حالات بگڑنے لگتے ہیں تو وزیر اعظم لندن بغرض علاج روانہ ہو جاتے ہیں اور اسی طرح جب ملکی حالات درست ہونے لگتے ہیں تو وزیر اعظم علاج کے لیے لندن روانہ ہو جاتے ہیں۔ گویا یہ لندن آنیاں جانیاں لگی رہتی ہیں خواہ بیماری کے نام پر ہوں یا آرام کے نام پر۔ مگر ایک بات تو طے ہے ۔ میاں صاحب خواہ کتنے ہی بیمار کیوں نہ ہوں، لندن میں خریداری کرنا کبھی نہیں بھولتے۔ ویسے بھی ان کا خاندان کافی بڑا ہے۔ چھوٹوں بڑوں کیلئے کچھ نہ کچھ تحفے تحائف لے جانے ہی پڑتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے اس بار میاں صاحب کس سٹور پر جاتے ہیں اور وہاں کس برانڈ کی گھڑی خریدتے ہیں۔ اس بار بیگم صاحبہ بھی ان کے ساتھ ہیں اور دونوں فرزند بھی، اور تو اور مولانا جبہ و دستار بھی تو لگتا ہے خریداری کا پروگرام خاصہ ہیوی ہو گا۔ جس قسم کی گھڑیاں وہ پسند کرتے ہیں ان گھڑیوں کے شو روم اور سٹور والے تو دیدہ و دل فرش راہ کئے میاں صاحب کی راہ تکتے ہوں گے۔کہ یہ پاکستانی ’’شیخ‘‘ کب تشریف لاتے ہیں۔
…٭…٭…٭…٭…٭ …
عزیر بلوچ بھی ارب پتی نکلے، غیر ملکی اکائونٹ اور کروڑوں کی پراپرٹی کا انکشاف
اب تو بس پانامہ لیکس میں بھی ان کا نام آجاتا تو وہ زیادہ مستند ہوجاتے۔ ویسے انسان ایسے کام ہی کیوں کرتا ہے کہ جب شکنجے میں پھنستا ہے تو پھر اپنی جان بچانے کی خاطر ایک ایک کرکے تمام ملکی و غیر ملکی اکائونٹس اندرون و بیرون ملک کروڑوں کی پراپرٹی بیوی بچوں اور رشتہ داروں کے نام پر رکھی جائیداد اور اکائونٹس سب اگلتا چلا جاتا ہے۔ جن کے لئے یہ سب کچھ بنایا ان میں سے کوئی سنگی یا بیلی بچانے کے لئے نہیں آتا۔
لیاری کراچی کا یہ ڈان کل تک جن کی ناک کا بال تھا، جن کے لئے کسی کی جان لینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، جو کل تک عزیر جان عزیر جان کہتے کہتے نہیں تھکتے تھے، آج نظریں چرا رہے ہیں، جاننے تک سے انکار کررہے ہیں ۔ عزیر بلوچ بھی شاید تنہائی میں؎
کل تک جو کہتے تھے اپنا آج وہی بیگانے ہیں
بیگانوں کو اپنا سمجھے ہم کیسے دیوانے ہیں
کا گیت گنگناتے ہوئے اپنے کرم فرمائوں کی ادائوں پر ضرور غور کرتے ہونگے۔ شاید انہیں بھی اب پتہ چلا ہوگا کہ لیاری کا ’’چھورا‘‘ تو بڑا کمال کانکلا، اتنی پراپرٹی، غیر ملکی اکائونٹ، زمینیں، بنگلے اور کاروبار تو صرف سیاستدانوں یا بیورو کریٹس کی ہی نکلتی ہے۔
…٭…٭…٭…٭…٭ …