اتوار ‘ 5؍ شعبان المعظم 1436ھ ‘ 24؍ مئی 2015ء
مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کا مقابلہ بھارت نواز دہشت گردوں کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں، بھارتی وزیر دفاع
بھارت کے وزیر دفاع کو معلوم نہیں اب کون سے بھارت نواز دہشت گردوں کی مزید ضرورت پڑ گئی ہے۔ جو اپنا حق خود دارادیت مانگنے والے کشمیریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے انہیں درکارہیں۔ کیا اس وقت مقبوضہ کشمیر میں موجود 7 لاکھ سے زیادہ وردی پوش بھارت نواز دہشت گرد کیا کم ہیں۔ جو مزید کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
بھارتی وزیر دفاع جس طرح کھل کر اپنے 7 لاکھ فوجیوں کی کشمیر میں بقول ان کے چند سو مسلح دہشت گردوں کے ہاتھوں ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں اس سے پورے جگ میں بھارت کی جگ ہنسائی ہو گی۔ نریندر مودی کیا یہ برداشت کر پائیں گے جو آئے روز دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کر کے وہاں اپنی فوجی طاقت اور نام نہاد جمہوریت کے دعوے کرتے پھرتے ہیں۔
اب کوئی نریندر مودی سے پوچھے کہ مہاشے آپ نے کس عقل سے پیدل شخص کو وزیر دفاع بنایا ہے جو خود اپنے فوجیوں کی ناکامی کا اعلان کرتا پھر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ماہ سے تحریک آزادی ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ اس کی جدوجہد کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ جو ’’را‘‘ کی سازشوں کی وجہ سے باہمی انتشار کے باعث مدھم پڑ رہی تھی۔ اب سرینگر سے لے کر ترال تک پاکستانی سبز پرچموں کی بہار نے ایک مرتبہ پھر بھارت نواز حلقوں میں خزاں طاری کر دی ہے اور کشمیری مردو زن…؎
جب تک چند لٹیرے میرے وطن کو گھیرے ہیں
اپنی جنگ رہے گی اپنی جنگ رہے گی
کے نعرے لگا رہے ہیں۔
شیخ ہو یا مفتی خاندان ان کی غداری اور تمام تر بھارتی ظالمانہ پالیسیوں کے باوجود کشمیر ایک بار پھر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ اور 7 لاکھ بھارتی فوجی بھی ان کو روک نہیں پا رہے۔ ’’بھارت کی جے‘‘ کا نعرہ فوجی چھائونیوں کے قبرستان میں کب کا دفن ہو چکا۔ یہ 7 لاکھ دہشت گرد تمام تر ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود کشمیر میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار کو آنے سے نہیں روک سکے۔ بھارت یہ حقیقت جتنی جلد تسلیم کر لے اتنا ہی بہتر ہے۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
پیپلز پارٹی میں ضیاء کی باقیات برداشت نہیں کرینگے، بلاول
پہلے تو بلاول جی پاکستان آئیں اور خورد بین لگا کر پارٹی کا جائزہ لیں کہ کس کس کی باقیات اس میں پائی جاتی ہیں۔ بھٹو صاحب کے بعد بے نظیر شہید کے قریبی ساتھی تو کب کے مال متروکہ قرار پا چکے ہیں۔ اب جو پیپلز پارٹی میں رونق لگی ہے وہ سب مانگے تانگے کی ہے۔ اصلی پیپلز پارٹی اس میلے کی رونق میں نجانے کہاں کھو گئی ہے۔ جبھی تو فرحت اللہ بابر کہہ رہے ہیں۔ بلاول نجانے کون سے ضیاء کی باقیادت کی بات کر رہے ہیں۔
بلاول صاحب پارٹی کی بات چھوڑیں یہ تو بہت بڑی ہے۔ چاروں صوبوں میں پھیلی ہے۔ آپ کو آپریشن کلین اپ کرنے کا موقع بھی ملتا ہے یا نہیں۔ اس بارے میں آپ کی اپنے والد آصف زرداری سے اختلاف کی خبریں افسانہ ہی سہی۔ مگر کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کا تو گھر بھی جو لاہور میں آپ کے نام پر بنا ہے۔ اس کی ملکیت بھی شاید آپ کے نام نہیں ہے اور اس کا مالک کوئی ہے جس نے بطور مالک ہی اس کا پراپرٹی ٹیکس بھی ادا کر دیا ہے۔ حیرت ہے زرداری صاحب اس خبر سے بے خبر ہیں یا ملک ریاض نے وفاداری بشرط استواری کی رسم نبھائی اور دوستوں کو زیر بار نہیں کیا۔
تو جناب بلاول صاحب آپ جلد از جلد وطن واپس آئیں اپنے گھر اور پارٹی کے معاملات سنبھالیں۔ ورنہ کہتے ہیں خالی گھر میں جن بھوت بسیرا کر لیتے ہیں۔ یہاں تو گھر کے ساتھ ساتھ پارٹی کی بھی یہی حالت لگتی ہے۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
گائے کا گوشت کھانا ہے تو پاکستان چلے جائو، مسلمانوں کو بی جے پی کے رہنما مختار عباس نقوی کا مشورہ
یہ ہوتے ہیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار جو اپنے حکمرانوں کی ہر اچھی بری بات پر دل و جان سے عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہے ان کا ایمان بھی ہاتھ سے جاتا رہے۔ اس کی ان کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اول تو کوئی مختار عباس نقوی نامی اس میر جعفر و میر صادق کے قبیلے کے رکن سے پوچھے کہ جناب بھارت میں گائے کا گوشت دستیاب ہی کہاں ہے کہ مسلمان اس کے کباب، تکے، کڑاہی یا بریانی بنا کر لذت کام و دھن کا اہتمام کریں۔ کسی دور دراز علاقے میں چھپ کر کبھی ایسا ہو جائے یا افواہ سی پھیلے تو درجنوں کے حساب سے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ان کے گھر تک جلا دیئے جاتے ہیں۔
رہی بات بیل اور بھینس یا سانڈ کی تو انہیں وہ تقدس حاصل نہیں جو گائے کو ہے۔ حالانکہ یہ بے چارے بھی اس کی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور رشتے میں گائے کے مجازی خدا اور نند یا نندوئی کہلا سکتے ہیں۔ ان کے ذبح پر تو کوئی نہیں بولتا اور مری ہوئی ہزاروں گائیوں کی کھال روزانہ چمار بے دردی سے اتارتے ہیں۔ کیا وہ ہندوئوں کو نظر نہیں آتا۔ مختار عباس نقوی کو تو شرم آتی ہے مسلمان کہتے ہوئے۔ مسئلہ گائے اور بھارتی مسلمانوں کا ہے۔ یہ صاحب بی جے پی کے رہنمائوں کا دل جیتنے کے لئے درمیان میں پاکستان کو لے آئے کہ گائے کا گوشت کھانے والے پاکستان چلے جائیں۔ حالانکہ ایسے فضول اور احمقانہ بیان سے اگر ان کا خیال ہے کہ بی جے پی والے ان سے محبت کریں گے اور انکی قدر کریں گے تو اس کا جواب انہیں ہندوستان میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی روشنی میں دیکھ لینا چاہیے۔ جہاں بی جے پی ہو یا کانگریس کے مسلمان لیڈرز انہیں تمام تر بھارت نوازی اور سیکولر ہونے کے باوجود انہی کے بھائی اور دوست بنے ہندوئوں نے قتل کیا زندہ جلایا اور لوٹ لیا تھا۔ مختار عباس نقوی اپنے ہم وطن مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دینے کی بجائے بہتر ہے کہ ذرا نریندر مودی سرکار کو بابری مسجد کی تعمیر اور مسلم اقلیت کے ساتھ بہتری کے سلوک کا مشورہ دے کر دیکھیں تو انہیں لگ پتہ جائے گا کہ یہی ان کے ہندو بھائی کس طرح ان کا کام تمام کرتے ہیں۔