پیر ‘26 رجب المرجب‘ 1438 ھ‘ 24 اپریل 2017ئ
گلگت بلتستان میں مارخور کے شکار کی فیس سے بجلی گھر کی تعمیر
مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے۔ یہ نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان کشمیر اور گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقے ان کا مسکن ہیں۔ گلگت بلتستان کی انتظامیہ یہاں سالانہ مارخور کے شکار کا مقابلہ کراتی ہے جس کی بھاری فیس ہوتی ہے۔ شکاریوں کو گنتی کے مارخور مارنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس کے بدلے میں بھاری فیس وصول ہوتی ہے۔ یہاں کے عوام کے لئے لوگوں کے لئے یہ مارخور باعث برکت تو تھا ہی اب باعث رحمت بن گیا ہے۔ گلگت بلتستان کی حکومت نے شکاریوں سے حاصل شدہ آمدنی سے وہاں بجلی گھر بنا لیا ہے جس سے 400 گھروں کو بجلی مہیا کی جاتی ہے۔ یہ خبر اگرچہ خوشی کا باعث ہے مگر بقول شاعر....
تعمیر تو کر شیش محل لاش پہ میری
شامل تیری خوشیوں میں میرا خون وفا ہے
دنیا بھر میں ایسے نایاب جانوروں کے شکار پر پابندی ہے۔ مگر ہمارے ہاں الٹا حساب ہے یہاں انہی نایاب جانور کے خون سے ہم اپنے گھروں کے چراغ روشن کر رہے ہیں۔
اب وہ لوگ کیوں خاموش ہیں جو تلور کے شکار پر آسمان سر پر اٹھایا کرتے تھے۔ حالانکہ عرب تلور کے شکار کے شوق میں بھی تلور کی نسل میں اضافہ کے لئے دل کھول کر مال خرچ کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں انہوں نے رحیم یار خان سے لے کر بہاولپور تک سڑکیں‘ بنیادی صحت مراکز‘ ہسپتال اور متعدد فارم ہا¶سز بنائے ہیں۔ جس علاقے میں ترقی ہو رہی ہے۔ گلگت اور بلتستان والے مارخور کی افزائش نسل کے لئے کیا کر رہے ہیں معلوم نہیں۔ یہ اگر اسی طرح شکار ہوتے رہے تو وہ مزید بجلی گھر کیسے بنائیں گے....
٭....٭....٭....٭....٭
دیوار مہربانی کے بعد دکان مہربانی ہر مال 20 روپے میں۔
دیوار مہربانی کا زمانہ زیادہ پرانا نہیں ہوا تھا کہ یاران تیزگام نے دیوار آگہی اور دیوار تعلیم کے نام سے بھی صحت کے حوالے سے معلومات اور کتابیں علم پرور غریبوں کے لئے سجا دیں۔ پشاور میں ایک اہل دل نے کھانے کے لئے لنچ باکس کی دیوار بنا دی۔ یوں قطرہ قطرہ اس تپتی زمین پر ابر کرم برسنے لگا۔ زمین کی پیاس تو نہ بجھی مگر تشنگی میں کمی آ رہی ہے۔ بحریہ دستر خوان‘ مدنی دستر خوان اور لنگر سب اسی قطرہ قطرہ ابر کرم کی علامتیں ہیں۔ اب راولپنڈی میں ایک ایسا دردمند بھی سامنے آیا ہے جس نے دکان مہربانی کھول لی ہے۔ یہاں بہترین مردانہ‘ زنانہ‘ بچگانہ سوٹ اور جوتے صرف 20 روپے فی جوڑی دستیاب ہیں۔ یقین نہیں آ رہا یہ سب کچھ اس احساس و مروت بانجھ ہوتی سرزمین پر ہو رہا ہے جہاں اہل زر ہر چیز پر قبضہ کرنے کے چکروں میں رہتے ہیں۔
اس کے باوجود ”ایسی چنگاری بھی یا اب اپنے خاکستر میں تھی“ روایت میں ہے کہ افضل اعمال میں کسی کو کھانا کھلانا اور کپڑے پہنانا ہے۔ یہ کمال کا اہل دل ہے جو کام امرا سے نہیں ہوتا جن کے وارڈ روب کپڑوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ یا ان بڑے بڑے سٹورز اور دکانوں کے مالکان بھی نہیں کر سکتے جو ہر سال بچا کچھا مال سیل کے نام پر دھوکہ دے کر سفید پوش طبقہ سے پیسے لوٹتے ہیں۔ یہ تنہا کر کے دکھا رہا ہے۔ سفید پوش ہی نہیں غریب بھی یہاں سے لباس لے جا رہے ہیں وہ بھی صرف 20 روپے میں۔ ارب پتی کھانا کھلائے کپڑے دے یہ کمال نہیں خیرات ہے۔ غریب کھلائے اور پہنائے تو یہ کمال ہے۔ خدا ہمارے ہر شہر میں دیہات میں ایسے باکمال لوگ عام کرے تو کوئی بھوکا ننگا نہیں رہے گا....
٭....٭....٭....٭....٭
پی ٹی آئی کا وزیراعظم کے استعفے کیلئے پی پی سے مل کر تحریک چلانے سے انکار
یہ ہے ہماری ڈرامہ باز سیاست کا خوبصورت چہرہ۔ تمام اپوزیشن جماعتیں اس وقت وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ سب کی تو بات چھوڑیں ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت جن کی حیثیت سیاسی جنگل میں اب تنہا بوڑھے برگد کے پیڑ کی سی ہے ان کے سائے میں بھی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی اے پی سی لاہور میں ہوئی جس میں وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کیا گیا۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جن کی اپنی قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں شاید ہی کوئی ایک آدھ سیٹ ہو۔ رہی بات شیخ رشید کی تو ان کا ذکر خیر کرنے کی ضرورت نہیں جہاں بھی حکومت گرانے یا وزیراعظم کے استعفےٰ کی بات ہوتی ہے۔ موصوف خودبخود وہاں آن دھمکتے ہیں اور تین میں یا تیرہ میں نہ ہونے کے باوجود عامیانہ گفتگو اور وحشیانہ تقریر کر کے لوگوں کا لہو گرماتے ہیں۔ ان کی حیثیت ایک پیشہ ور مقرر کی سی ہو گئی ہے۔ مگر یہ بڑی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ بجا رہی ہیں۔ جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف اور پی پی پی‘ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں ہیں مگر ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھتی ہیں۔ خان صاحب کو زرداری صاحب ڈاکو نظر آتے ہیں تو زرداری صاحب کو خان صاحب اناڑی لگتے ہیں۔ سراج الحق خان صاحب کو شاید یہ سب شکاری نظر آتے ہیں۔ یہ تو کھلم کھلا بھان متی کا کنبہ لگتا ہے۔ جن کے دل ہی آپس میں نہ ملتے ہوں‘ ان میں سیاسی یگانگت کیا ہو گی۔ فائدہ مسلم لیگ (ن) اٹھا رہی ہے۔ جب دشمن منتشر ہوں تو مخالف لشکر سنبھل جاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں خان صاحب بقول ان کے چور اور ڈاکو سے تن تنہا کس طرح پنجہ آزمائی کرتے ہیں۔ جماعت والے تو اب صرف معرکہ کے بعد مال غنیمت سمیٹنے کے لئے رہ گئے ہیں....
٭....٭....٭....٭....٭