جمعۃ المبارک 4 ؍ رجب المرجب 1436ھ ‘ 24؍ اپریل 2015ء
کراچی میں 5 ایکٹر زمین 6 ہزار روپے سالانہ لیز پر دینا صدی نہیں ملینیم کا انوکھا واقعہ ہے، سپریم کورٹ۔
اور ایسے انوکھے واقعات سے ہماری 68 سالہ تاریخ بھری پڑی ہے۔ یقین نہ آئے تو ورق ورق پلٹ کر دیکھئے ایسے ہی تاریخی واقعات ہماری آنکھوں کو خیرہ کرتے ملیں گے۔
ہمارے حکمرانوں کی مہربانیوں اور بیوروکریسی کی کرم فرمائیوں کی بدولت ارضِ وطن کی مقدس زمین کو اس طرح اقبالؒ سے معذرت کے ساتھ
’’زمیں فروختند وچہ ارزاں فروختند‘‘ کے مصداق بیچا گیا ہے۔
کسی نے اگر آواز بلند کی تو اس کو مثال عبرت بنا دیا گیا۔ کسی کو نامعلوم گولی چاٹ گئی تو کسی کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ کوئی بے چارا ویسے ہی لاپتہ ہو گیا۔ کیا کراچی کیا لاہور کیا کوئٹہ کیا پشاور اور تو اور اسلام آباد۔ ہر جگہ لینڈ مافیا سیاستدانوں، حکمرانوں اور بیورو کریسی کو خریدتا ہے۔ جو بکتے نہیں انہیں کھڈے لائن لگوا دیتا ہے۔ اور کروڑوں کی اراضی کوڑیوں کے بھائو خریدی اور سونے کے بھائو بیچی جاتی ہے۔
یہ اراضی چاہے کھیل کے میدان کے لئے ہو سرکاری ہسپتال کے لئے، سکول کے لئے ہو یا کالج کے لئے یہ بھول کر کہ یہ عوامی منصوبے ہیں۔ انہیں خواص کے ہاتھ بیچ دیا جاتا ہے۔ اب تو زرعی اراضی کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔
یہ ظالم مافیا اور اس کے سرپرست یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر یہ اراضی ختم ہو گئی تو زرعی اجناس کا وہ قحط پڑے گا کہ انسان انسان کو کھانے لگے گا۔ اس وقت یہ سیمنٹ کے مکان، پلازے اور بنگلے کھائے نہیں جائیں گے۔ یہ جو آج ہم زمین کو کھا رہے ہیں کل یہی زمین ہمیں کھا جائے گی۔
اب جن لوگوں نے یہ 5 ایکٹر اراضی 6 ہزار روپے سالانہ لیز پر دی ہے کیا انہوں نے اسے باپ کی جاگیر سمجھ لیا تھا۔ اگر ان کو عدالت بے نقاب کر کے قرار واقعی سزا دے تو شاید دوسرے زمین خوروں کو عبرت حاصل ہو۔ حالانکہ اس کی امید کم ہے کیونکہ انہوں نے تو اپنے دفن کے لئے شاید ہی کوئی جگہ چھوڑی ہو یہ تو قبرستانوں کو بھی بیچ کر پلازوں اور کالونیوں میں بدل رہے ہیں۔
…٭…٭…٭…٭…
’’کنیٹنر ناکام، لفٹر دھڑام، جنریٹر جام‘‘ کے شعری انداز میں وزیر اطلاعات کا عمران خان کو بات کرنے کا سلیقہ سیکھنے کا مشورہ۔
اب اگر کسی کو بات کرنے کا سلیقہ سکھانے کا طریقہ یہ ہے تو پھر بد سلیقہ کون کہلائے گا۔ یہ جام دھڑام، شڑام گرائمر کی کون سی فارم ہیں۔
پرویز رشید اب بچپن، لڑکپن اور جوانی کی عمر سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ یہ دھول دھپا ان کو راس نہیں آ سکتا۔ اب اگر عمران نے بھی جواب میں ایسی ہی ہزلیہ شاعری میں ردیف قافیہ باندھا تو کہیں وزیر اطلاعات کو بھی بزبان غالب…؎
دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
نہ کہنا پڑ جائے۔ کیوں کہ عمران خان بھی عوامی زبان بہت اچھی طرح بول لیتے ہیں۔ آخر انہوں نے کچھ عرصہ شیخ رشید کی محبت میں بھی گزارا ہے۔ خدا جانے ہمارے سیاستدانوں کو بے وقت کی راگنی گانے کا شوق کیوں ہے۔ جب تک عمران باہر تھے انہیں واپس پارلیمنٹ میں لانے کے لئے:
’’آجا تینوں اکھیاں اُڈیکدیاں‘‘
والا راگ الاپا جا رہا تھا۔ اب وہ آ گئے ہیں تو انہیں اب جان بوجھ کر چھیڑا جا رہا ہے۔
اس طرح کی باتوں سے بے شک کوچہ سیاست میں گہما گہمی رہتی ہے۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ انہی باتوں کی وجہ سے جو آگ لگتی ہے وہ پھر بجھائے نہیں بجھتی۔ سڑکوں اور میدانوں میں یہ نجیب الطرفین سیاستدان ایسے ایسے بیان داغتے ہیں جن سے دوسروں کے دامن کے داغ تو نمایاں ہو ہی جاتے ہیں خود ان کے دامن کے داغ بھی نظر آنے لگتے ہیں۔
…٭…٭…٭…٭…
جمشید دستی اور پی ایس او یونین 29 ارب کی تیل چوری میں ملوث، تحقیقات مکمل۔
کہتے ہیں گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ اب اگر پاکستان آئل یعنی پی ایس او کی اپنی مزدور یونین کے عہدیدارہی تیل چوری کرنے میں ملوث ہیں تو بے چارے جمشید دستی سے کیا گلہ کرنا۔ اس کی سرپرستی بھی انہی یونین والوں نے کی ہو گی۔ تب ہی کہیں جا کر وہ تیل کے پائپوں میں نقب لگا کر تیل چوری کرتے رہے ہوں گے۔
اب اگر ہمارے ایم این ایز یعنی ارکان قومی اسمبلی ذرا بھی عقل مند ہوتے تو جب جمشید دستی ایم این ایز کے ہاسٹل میں شراب کی خالی بوتلیں جمع کرتے پھرتے تھے اس وقت اگر وہ جمشید دستی کے گھر جا کر تلاشی لیتے تو امید واثق ہے کہ وہ وہاں سے پٹرول کے بھرے کئی گیلن یا ٹینکر بآسانی برآمد کر سکتے تھے۔ مگر افسوس ایسی عقل ہمارے ارکان اسمبلی کو کہاں۔ وہ تو بس ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اور ساری عقل اگر موجود ہے تو انہی غیر عقلی سرگرمیوں پر خرچ کرتے ہیں۔
اب جمشید دستی یا پی ایس او یونین کے رہنما اور سرکاری ملازمین جنہوں نے تیل دیکھا نہ تیل کی دھار دیکھی اندھا دھند لوٹ مار مچائی ہے انہیں قانون کی گرفت میں لیتے ہوئے کسی دھمکی یا ہڑتال سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ جو بھی اس تیل کی بہتی گنگا میں سراپا شرابور ہیں انہیں کڑی سزا دی جائے کیونکہ قومی خزانے سے اربوں روپے لوٹنے والے یہ لوگ وطن کے دشمن ہیں اور انہیں معاف نہیں کیا جا سکتا۔