منگل ‘27 ذیقعدہ 1435 ھ ‘ 23 ستمبر2014ئ
وزیر اعلیٰ نے سیلاب متاثرین کو ملنے والا کھانا رغبت سے کھایا!
آجکل حکومت کی جو حالت ہے وہ سیلاب متاثرین سے بھی زیادہ مخدوش ہے۔ اس وقت تو رقت قلب کے سبب دال روٹی بھی مرغ مسلم سے زیادہ لذیذ نظر آتی ہو گی یہ تو پھر وزیر اعلیٰ کے حکم پر سیلاب متاثرین کے لئے گوشت اور مرغ سے تیار شدہ کھانا ہے جو اس وقت متنجن سے بھی زیادہ لذیذ لگا ہو گا ورنہ عمران کے دھرنوں اور جلسوں کی وجہ سے منہ میں جو کڑواہٹ گُھلی ہوئی ہے اس نے تو سب کے ذائقے خراب کر کے رکھ دیئے ہیں۔
اکثر وزراءکے ہاتھوں گھریلو خانساموں کی روزانہ بے مزہ کھانے پر کلاس بھی ہوتی ہے اور سارے اہلخانہ صاحبِ خانہ کی طرف سے خانساماں کو پڑنے والی جھاڑوں پر حیران ہوتے ہیں کہ اچھے بھلے کھانے میں یہ کیوں نقص نکل رہے ہیں۔
بہرحال صاحبانِ اقتدار کے مسائل سیاست سے ہٹ کر اس وقت جہاں جہاں سیلاب متاثرین کو وزیر اعلیٰ کے حکم کے مطابق مرغ اور مٹن ملا سالن یا کھانا ملتا ہو گا وہ سب دل سے ان کے لئے دعا گو ہوں گے جن کی بدولت عرصہ دراز کے بعد ان کے منہ ان بھولے بسرے کھانوں کے ذائقے سے آشنا ہوئے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
خواجہ سرا عمران کے دھرنے کے خلاف احتجاجی تحریک چلائیں گے، لاہور میں ”ٹھمکا دھرنا“ ہو گا!
یہ خبر حکومتی حلقوں میں شاید اطمینان کا باعث ہو گی کہ عوام الناس میں سے چلیں کوئی طبقہ تو ان دھرنوں کے خلاف میدان میں آیا، اب کون آیا اس بحث کو چھوڑیں، یہ HE اور SHE کی بحث سے ہٹ کر دیکھیں، کتنے لوگوں کو پاکستان کے حالات اور سیاست سے دلچسپی ہے۔ اور یہ سب موجودہ ابتر صورتحال میں پریشان ہیں۔ اب خواجہ سراﺅں نے لاہور میں ”ٹھمکا دھرنا“ سجانے کا جو اعلان کیا ہے وہ بھی معنی خیز ہے۔
اس طرح تو خیبر پی کے سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد کے دھرنے میں شریک شائقین کی توجہ بٹ سکتی ہے کیونکہ اسلام آباد کی نسبت لاہور میں لگنے والا ٹھمکا دھرنا خاصہ پُرکشش اور رنگا رنگ ہو سکتا ہے، سیر و تفریح کے ذرائع، کھانے پینے کے مراکز، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے بھی یہاں بہت سہولتیں میسر ہیں۔ اس طرح اسلام آباد کی محفل رقص کے مقابلے میں یہ لاہوری محفل ٹھمکا بھی دیکھنے سے تعلق رکھے گی اور اس بہانے اس مندے کے دور میں بہت سے لوگوں کا کام دھندا چل پڑے گا۔
اب اگر عمران کے حق میں بھی خواجہ سرا برادری کا دوسرا گروپ سامنے آ گیا تو پھر سمجھ لیں کہ اس ٹھمکا دھرنے میں وہ جوتیوں میں دال بٹے کہ تو سب کو پتہ لگ جائے گا۔ کوئی نان سٹاپ بیت بازی نما جملے بازی اور تالیاں بجا کر کوسنے دینے کا عمل لائیو دکھایا جائے تو لاکھوں دکھوں کی مارے عوام بھی قہقہے لگانے پر مجبور ہو جائیں گے اور اگر عمران عمران کے مخالف خواجہ سرا¿ اسلام آباد میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے پہنچ گئے ہیں تو پھر یاد رکھیں یہ عمرانی دھرنے کئی سال اسی طرح ”ہاﺅس فل“ چلتے رہیں گے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
بلاول نے اپنی 26ویں سالگرہ سادگی سے منائی۔ اس سے قبل الطاف حسین نے بھی اپنی 61ویں سالگرہ سادگی سے منائی۔ ان دونوں رہنماﺅں کو لگتا ہے کراچی کے حالات کا کچھ زیادہ ہی دکھ ہے۔ یا سیلاب متاثرین سے یکجہتی کے لئے انہوں نے سادگی اپنائی۔ دونوں باتیں اپنی جگہ بالکل درست ہیں۔
ایک طرف ملک میں سیلاب نے تباہی مچائی ہے تو دوسری طرف عروس البلاد کراچی میں موت کا رقص پھر عروج پر ہے۔ اس پر تو ہم الطاف بھائی کی ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومت کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ دونوں مل کر بھی اپنے دور حکومت میں لاشیں گرانا روک نہیں سکتیں تو پھر آخر ”اس مرض کی دوا کیا ہے“ یہ کون لوگ ہیں جو سلیمانی ٹوپی پہن کر وارداتیں کرتے پھرتے ہیں اور کسی کو نظر نہیں آتے۔
اوپر سے الطاف بھائی نے صوبوں کی تقسیم کے حوالے سے پرانی شراب ایک بار پھر نئی بوتل میں سجا کر جس طرح پیش کی ہے اس سے بھی خطرہ ہے کہ مذہبی، لسانی، قبضہ اور بھتہ گروپوں کی اس جنگ میں سیاسی انتشار بھی داخل ہو کر نئے گل نہ کھلائے۔ بے شک نئے صوبوں کے موضوع پر بہت سوچ بچار کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے۔ مگر اس وقت یہ جلتی پر تیل ڈالنے والی بات ثابت ہو گی۔ ملک کے چاروں صوبے اس کی لپیٹ میں آ کر ”ٹیں پٹاس“ کی تصویر بن سکتے ہیں۔
بلاول نے تو ”مرسوں مرسوں‘ سندھ نہ ڈیسوں“ کا نعرہ لگا کر عملاً کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کی مخالفت کا نعرہ بھی لگا دیا۔ اب دیکھتے ہیں منظور اور نامنظور کے نعروں کے درمیان عمران خان کراچی میں اپنا ”نیا پاکستان“ لے کر جس طرح ”بلے بلے“ کا لائیو شو پیش کر چکے ہیں۔ اس کے بعد پی پی پی اور ایم کیو ایم آنے والے کل کی چاپ سُنیں گے یا شُتر مرغ کی طرح کراچی کے ساحل سمندر کی ریت سے سر چھپا لیں گے مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے بلی غائب نہیں ہوتی اور یہ عمرانی جلسہ جہاں ان دونوں جماعتوں کے رہنماﺅں کی آنکھوں سے نیند اڑانے کے لئے کافی ہے اسکے ساتھ ہی سندھ میں پی ٹی آئی کی آمد کا اعلان بھی۔
٭۔٭۔٭