جمعرات‘ 27؍ ذی الحج 1435ھ‘ 23 ؍ اکتوبر 2014ء
سپیکر سندھ اسمبلی کی وزیر فشریز سے جھینگے اور مچھلی کھانے کی فرمائش۔
ایک طرف تھر میں بھوک اور پیاس کے ہاتھوں متعدد بچے جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں تو دوسری طرف انہی لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ان کے مسائل حل کرنے کے نام پر اسمبلی میں بیٹھنے والے، پیٹ بھرے یہ سیاست دان مخول اور ٹھٹھے کر رہے ہیں۔ وزیر خوراک کے ہاتھوں مزے دار کباب اور کھانوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ سپیکر اسمبلی وزیر فشریز سے تمام ممبران کو فرائی مچھلی اور جھینگے کھانے کی فرمائش کر رہے ہیں۔ گویا یہ اسمبلی نہ ہوئی کوئی ہوٹل ہو گیا۔ خطرہ ہے کہیں پنجاب اسمبلی میں کسی کی رگِ خوراک پھڑک اٹھی اور اس نے بھی بونگ پائے اور مچھلی کی فرمائش کر ڈالی تو کیا ہو گا۔ یہاں تو کیا حکومت کیا اپوزیشن سب ہی کھابوں کے شوقین ہیں۔ مردوزن کی کوئی تفریق نہیں۔
اس وقت تھرپارکر اور مٹھڑی میں غذائی قلت کا بحران عروج پر ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ہر سال خشک سالی اور غذائی بحران درجنوں افراد کی خاص طور پر بچوں کی جان لیتا ہے۔ مگر کیا مجال ہے کہ سندھ کی عوامی حکومت ٹس سے مس ہو۔ سندھ کے عوام سر نہیں، جان نہیں، لہو نہیں مانگتے انہیں صرف جینے کا حق چاہئے۔ اور بھٹو کے نعرے کے مطابق دو وقت کی روٹی، رہنے کے لئے چھت اور صحت و تعلیم کی سہولتیں ان کا بھی حق ہے جتنا ان وزیروں، مشیروں اور ممبران اسمبلی کے بچوں اور گھر والوں کا حق ہے۔ سندھ سمندری وسائل سے مالا مال ہے۔ ان وزیر خوراک اور وزیر فشریز کو چاہئے کہ وہ اور کچھ نہیں تو مچھلی، جھینگے، روٹی اور پینے کا پانی ہی تھرپارکر میں فوری طور پر ڈھیروں کے حساب سے بھجوا دیں تاکہ وہاں کے لوگوں میں جینے کی امنگ اور حکمرانوں کی ہمدردی کا احساس پیدا ہو مگر کیا یہ کرنا ان کے لئے ممکن ہے…!
٭…٭…٭…٭
ٹوئیٹر تمام برائیوں کا منبع ہے۔ درست استعمال سے حقیقی فائدہ مل سکتا ہے۔ سعودی مفتی اعظم!
ہمیں مفتی اعظم کی بات سے اختلاف کی بھلا مجال ہو سکتی ہے مگر کوئی چیز بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی یہ اس کے استعمال پر منحصر ہے کہ کون کس طرح کرتا ہے۔
ہمارا پیارا راج دلارا لاؤڈ سپیکر جب نیا نیا آیا تو مساجد کے دروبام سے اس کے خلاف ’’شیطانی آواز‘‘ کا نعرہ بلند ہوا۔ مشرق تا مغرب سب نے اس کی مخالفت کی۔ اور آج یہی سوہنا تے من موہنا لائوڈ سپیکر بلند سے بلند منیار پر براجمان ہے اور ایک نہیں اکٹھے چار چار نصب ہوتے ہیں اور جب تک آن نہ ہوں کوئی مولانا خطاب کرنا پسند نہیں کرتے۔ دن ہو یا رات جب چاہے مولانا درس و تدریس سے لے کر نعت خوانی اور اعلانات تک اس کی بدولت پورے شہر کو سنانے پر مُصر ہوتے ہیں۔ چاہے آس پاس کوئی بیمار، طالب علم یا بوڑھا کتنا ہی چیں بچیں ہوں۔ انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔
اسی طرح ریڈیو کو شیطانی ڈبہ اور ٹی وی کو تو شیطان کی خالہ بنا دیا گیا۔ مگر خدا واسطے کی بات ہے۔ آج یہی لوگ جو دن رات ٹی وی کو خباثت کا مرکز قرار دیتے ہیں کیا انہیں خود بھی ٹی وی پر آئے بنا قرار آتا ہے۔ وہ تو ہرممکن کوشاں رہتے ہیں کہ میڈیا پر ٹی وی پر ان کا دیدار عام ہر وقت ہوتا رہے۔ چاہے خلق خدا دیکھنا بھی پسند نہ کرے۔
اسی طرح ٹوئیٹر سوشل میڈیا میں عوامی رابطہ کا سب سے مقبول ذریعہ بنا ہوا ہے۔ انقلاب سے لے کر احتجاج تک تبادلہ خیال سے لے کر تبریٰ بازی تک اسی مقبول لائوڈ سپیکر کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس لئے اس کے استعمال کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اس کا درست استعمال کریں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلطی پر نا ٹوکیں۔ برائی کی مذمت نہ کریں۔ اظہار رائے مناسب انداز میں سب کا حق ہے۔ کیا معلوم کل کو مفتی اعظم کے نام پر بھی کوئی ٹوئیٹر اکائونٹ نکل آئے۔
٭…٭…٭…٭
کم عمری کی شادی سے ذہنی وجسمانی صحت بدترین مسائل سے دوچار ہوتی ہے۔ اب لاکھ انسانی حقوق یا خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اور خواتین رہنما اس بارے میں سیمینار منعقد کریں۔ بیانات جاری کریں۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی نکلتا نظر آتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں کتنے فی صد لوگ اخبار اور ٹی وی کا سنجیدگی سے مطالعہ کرتے ہیں اور یہ پیغام کتنی فی صد خواتین تک پہنچ پاتے ہیں۔
اصل مسئلہ دیہی اور پس ماندہ علاقوں میں خواتین کو بیدار کرنا ہے۔ ان میں کم از کم اور کچھ نہیں تو اپنی بچیوں کی زندگی اور مستقبل کے حوالے سے کم عمری کی شادیوں کے خلاف شعور بیدار کرنا ہے کہ یہ ان بچیوں پر ظلم ہے جو اپنا بوجھ نہیں سنبھال سکتی وہ گھر بار، شوہر، سسرال اور پھر بچوں کا بوجھ کیسے سنبھال پائیں گی۔ ان کے کھیلنے کے دن ان سے نہ چھینیں انہیں بابل کے آنگن میں کچھ دن تو کھیلنے دیں۔ اس کے بعد تو وہی…؎
بھیا کو دے تو نے محل دو محلے
ہم کو دیا پردیس
والی بات ہونا ہوتی ہے۔ کاش ہمارے مذہبی رہنما بھی مساجدومنبر اور حکومتی اداروں سے ان فرسودہ رواجوں اور رسومات کے خلاف آواز بلند کریں جس طرح دوسری شادی اور اس کی اجازت کے بارے میں مولانا شیرانی آج کل کر رہے ہیں تو ہزاروں جانیں جو زچگی اور صحت کے مسائل کی وجہ سے گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے تلف ہوتی ہیں بچائی جا سکتی ہیں۔
اہم مسئلہ دوسری شادی یا اس کی اجازت نہیں کم سن بچیوں کی شادی کا ہے جسے روکنا ہو گا۔ ورنہ نجانے کتنے گھر ہمارے اس فرسودہ خاندانی قبائلی اور ناخواندہ رسومات اور رواجوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ ’’کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں‘‘۔