عوام کے مقبول لیڈر کو عدالتی فیصلے سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ رانا ثنا اللہ
حیرت کی بات ہے وزیر قانون و داخلہ پنجاب کا حافظہ اتنا کمزور کیسے ہو گیا۔ کیا وہ بھول گئے ماضی کے وہ دن جب کبھی وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی شاخوں پر بیٹھے چہچہاتے تھے۔ بھٹو کیس میں کئی بڑے بڑے دانشور اور مدبر دن رات کہتے پھرتے تھے کہ بھٹو صاحب کو کوئی پھانسی نہیں دے سکتا۔ خود بھٹو مرحوم کو بھی یہی باور کرایا گیا کہ ضیا میں یا کسی عدالت میں اتنا دم خم نہیں کہ فخر ایشیا قائد عوام دنیا کے عظیم لیڈر کو پھانسی دے سکے۔ مگر خود رانا جی نے اور پوری دنیا نے دیکھا کہ بھٹو کو منقسم عدالتی فیصلے کے بعد بھی پھانسی دے دی گئی۔ آج اگر رانا جی کو یہ سب کچھ یاد نہیں تو نظریہ ضرورت والا فیصلہ ہی انہیں یاد کر لینا چاہئے۔ جس کے تحت مارشل لا کو بھی تحفظ ملا۔ اب اس وقت پانامہ کیس عدالت میں ہے۔ عدالتی احکام کے باوجود پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) والے ہر روز سماعت کے بعد من مرضی کے بیانات جاری کرتے پھرتے ہیں۔ دونوں کو ڈر ہے کہ اگر فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف آ گیا تو کیا ہو گا۔ اپنا اپنا خوف دور کرنے کے لئے پی ٹی آئی کرپشن سے نجات ملنے کا شور مچا رہی ہے۔ تو مسلم لیگ بھی جھوٹوں کا منہ کالا کے نعرے لگا رہی ہے۔ اسلئے رانا جی کو احتیاط لازم ہے۔ عوام کے کئی مقبول لیڈر دنیا بھر میں عدالتوں کے ہاتھوں کہیں حکومت سے اور کہیں اپنی جان سے محروم ہوئے ہیں اور اگر کئی کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔ جنہوں نے کیا ہی کچھ نہیں ہے تو انہیں ڈرنا کاہے کو۔ فکر تو اسے کرنی چاہئے جو غلط ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭
عبدالستار ایدھی کو حکومت پنجاب کا خراج عقیدت‘ تیسری اور چوتھی کے نصاب میں شامل
بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ساری زندگی ساری محنت دنیا کے نادار انسانوں کی بہبود پر صرف کر دیتے ہیں۔ انہی میں سے ایک ہمارے عبدالستار ایدھی صاحب بھی تھے جنہوں نے ساری زندگی مخلوق خدا کے لئے وقف کئے رکھی۔ مذہب ذات پات قومیت اور پیشے سے ہٹ کر سب کو حالت معذوری اور بیماری میں سہارا دیا اور تو اور مرنے کے بعد بھی انہیں لاوارث نہ چھوڑا انہیں آخری آرام گاہ یعنی قبر تک کی جگہ دی۔ زندگی میں تو کوئی نہ کوئی کام آ ہی جاتا ہے مگر یہ کفن دفن یعنی مرنے کے بعد بھی کام آنا کسی کسی کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ڈاکو بھی انہیں لوٹنے سے پرہیز کرتے تھے الٹا اپنے کفن دفن کے لئے چندہ بھی دیتے تھے کہ کل ایدھی صاحب نے ہی ان کی بے گور و کفن لاشوں کی تدفین کرنی ہے۔
پنجاب حکومت نے تیسری اور چوتھی کے نصاب میں ایدھی صاحب کو شامل کر کے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح ہمارے بچوں میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہو گا اور وہ اغیار کے انسان دوست رہنماؤں کے ساتھ جب اپنے انسان دوست ایدھی صاحب کے بارے میں بھی پڑھیں گے تو ان کا سر فخر سے بلند ہو گا۔ اگر باقی صوبے بھی اپنے نصاب میں ایدھی صاحب کی خدمات شامل کر لیں تو اس کا نئی نسل پر اچھا اثر ہو گا…
٭…٭…٭…٭…٭
بلاول نزلہ زکام اور بخار کا شکار‘ 25 کو دبئی جائیں گے۔
ہمارے نئے نوجوان عوامی رہنما لاہور تا فیصل آباد کی ریلی نکالنے کے بعد آلودگی سے بھرپور آب و ہوا میں سانس لینے کی وجہ سے لگتا ہے۔ نزلہ زکام اور بخار میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ایک تو نازک مزاجی اوپر سے یہ محنت طلب کام بھلا یکدم اتنے مسائل کا تنہا بلاول زرداری کہاں مقابلہ کر پائے۔ ساری زندگی یورپ کی پاک و صاف آب و ہوا میں صاف ستھرے ماحول میں بچپن اور جوانی گزارنے والا ہمارے اس ماحول میں بیمار نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا۔ ہمارے عوام کے ہمدرد یہ رہنما تو کھانا اور پینا تک پاکستان میں رہتے ہوئے بھی یورپ و امریکہ سے منگواتے ہیں تاکہ خالص ہو اور گندے لوگوں کے گندے ہاتھ اسے نہ لگے ہوں۔ یہی رہنما جب ووٹ مانگنے اور حکومت کی خیرات لینے کاسہ گدائی سنبھالے انہی گندے لوگوں سے ملتے ہیں ان میں گھل مل جاتے ہیں تو بعد میں شاید ڈیٹول کی پوری بوتل ٹب میں ڈال کر غسل کرتے ہیں تاکہ جراثیم سے محفوظ رہیں۔
اب لگتا ہے بلاول صاحب کو انفلوائزا بھی ریلی کی تھکاوٹ اور موسم سرما کی شدت کی وجہ سے ہوا ہے۔ عوام میں گھلنے ملنے کی وجہ سے ایسے جراثیم جلد حملہ کرتے ہیں۔ اب انہیں احتیاط کرنی چاہئے۔ آج وہ کراچی جا کر ڈاکٹر عاصم کے ہسپتال میں چیک اپ کرائیں یا پرسوں دبئی جا کر وہاں معائنہ کرائیں اور اچھی کمپنی کی دوا ضرور لیں۔ امید ہے آصف زرداری صاحب بھی بلاول صاحب کو مناسب احتیاط‘ تدابیر اور مشوروں سے نوازیں گے…
٭…٭…٭…٭…٭
بچے کو بچاتے ہوئے مدرسے کا 16 سالہ طالب علم جاں بحق۔
آفرین ہے ایسے لوگوں پر جو اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کی جان بچاتے ہیں۔ چاہے وہ خیبر پی کے کا اعتزاز حسن ہو یا لاہور کا کلام صدیق۔ ان دونوں طالب علموں نے وہ کام کئے جو تادیر اہل وطن کو ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔ تعلیم مدرسے کی ہو یا سکول کی اگر وہ دل و دماغ کو روشن کرتی ہے۔ جہالت کو دور کرتی ہے۔ حلم‘ برداشت عدل قربانی و ایثار کا جذبہ پیدا کرتی ہے تو طالب علم کامیاب رہتے ہیں۔ لیکن اگر یہی تعلیم مدرسہ کی ہو یا سکول کی اگر انسان کو ان صفات سے محروم کرتی ہے تو سمجھ لیں طالب علم ناکام رہتا ہے۔ ہمارے نظام تعلیم میں بے شمار خامیاں ہیں بقول اقبال؎
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
مدرسہ ہو یا سکول کالج ہمیں اپنے طالب علموں کو اچھا انسان اچھا مسلمان بنانے پر خصوصی توجہ دینا چاہئے۔ یہ نہیں کہ وہ اپنے سوا سب کو قابل گردن زدنی اور غلط و جاہل قرار دیتے پھریں۔ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ ایک دوسرے کی مدد ایک دوسرے سے حسن سلوک ہمارا شیوہ ہونا چاہئے۔ اگر ہم سب میں اعتزاز حسن اور کلام صدیق جیسا دوسرے کے لئے مر مٹنے کا جذبہ پیدا ہو جائے تو ہمیں ایک عظیم قوم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا…
٭…٭…٭…٭…٭