جمعرات‘ 3 ؍ رجب المرجب 1436ھ ‘ 23؍ اپریل 2015ء
الطاف حسین نے گورنر سندھ عشرت العباد سے لاتعلقی کااعلان کر دیا۔
اب یہ اعلان لاتعلقی بھی الطاف بھائی کے استعفے کی طرح واپس لئے جانے والا اعلان نہ ثابت ہو۔ کیونکہ الطاف بھائی ایسا جو بھی اعلان کرتے ہیں اس سے فوری طور پر رجوع بھی کر لیتے ہیں۔ اب اگر یہ لاتعلقی کا اعلان حقیقی ہے تو سمجھ لیں اب عشرت العباد یا تو ایم کیو ایم حقیقی میں جا بسیں گے۔ یا انکے عیش و عشرت کے دن ختم ہونے والے ہیں۔کیونکہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ ایم کیو ایم میں داخلہ آسان ہے البتہ وہاں سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ اب عشرت العباد تو نکلے نہیں نکالے گئے ہیں۔ وہ چاہیں تو…؎
دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے
جیون بھر کا غم ہمیں انعام دیا ہے
والا شعر گنگنائیں یا پہلے کی طرح خاموشی کی مہر لگا کر اپنے لب سی لیں۔ ایک عرصہ کی طویل رفاقت کے بعد الطاف بھائی نے اگر انہیں رائذہ درگاہ کیا ہے تو ضرور اس کے پیچھے کوئی راز ہو گا۔ اور آج کل تو ویسے ہی ایم کیو ایم کے سارے راز داں اپنی اپنی گردن بچانے کی فکروں میں مبتلا ہیں۔ انہیں کسی دوسرے کی کیا پرواہ ہوگی۔رہی بات الطاف بھائی کے واپس آنے کی تو وہ فرماتے ہیں جب لندن میں درج مقدمات ختم ہونگے تو وہ واپس کراچی آ جائینگے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ جب لندن کے مقدمات درج نہیں تھے تو تب آپ نے کراچی میں تشریف لانا کیوں پسند نہیں کیا کہ اب آپ کو کراچی کی یاد آنے لگی ہے۔ یہ تو وہی ’’نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی‘‘ والی بات ہوئی۔ گوروں نے جو مقدمات بنائے ہیں ان سے فی الحال کافی عرصہ تک الطاف بھائی کی کراچی واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف کراچی میں ایم کیو ایم کے بڑے بڑے بھی گردنیں بچانے کے چکروں میں ہیں تو ایسے میں عشرت العباد کیا کر سکتے ہیں۔ انہیں تو اپنی جان بھی شکنجے اندر پھنستی محسوس ہوتی ہو گی۔
…٭…٭…٭…٭…
شیخ رشید کی آرمی چیف سے ہاتھ ملانے کی تگ و دو، دھکم پیل کرتے رہے۔
آج کل اول تو کسی سرکاری تقریب میں شیخ رشید کو بلانا ہی ان کی خوش قسمتی ہے۔ اور پھر جب تقریب میں انکے ممدوح اور محبوب آرمی چیف بھی موجود ہوں تو پھر شیخ صاحب کی بے تابی قدرتی امر ہے۔ اس کا مظاہرہ گزشتہ شب اس وقت دیکھنے کو ملا جب آرمی چیف چینی صدر کے اعزاز میں دی گئی تقریب میں تشریف لائے تو شیخ جی اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکے اور سرخوشی کے عالم میں خودکشی تو نہ کر سکے البتہ حدود و قیود کو توڑتے ہوئے آرمی چیف سے ہاتھ ملانے کیلئے لپک لپک کر آگے بڑھے۔ بقول شاعر…؎
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے
والے حالات تھے شیخ جی کے۔ اب اتنی بے تابی کے بعد جب انہوں نے آرمی چیف کی دست بوسی کا شرف حاصل کیا ہو گا تو ان پر یقیناً شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوئی ہو گی۔ جس پر انہوں نے بڑی مشکل سے قابو پایا ہو گا۔ افسوس کہ آرمی چیف نے اپنے اس دیوانے کو زیادہ لفٹ نہیں کرائی۔ ورنہ یہ دیوانہ تو ہاتھ ملانا ایک طرف ان کی ایک انگلی پر فدا تھا اور اس انگلی کے اشارے پر پورے ملک کی حکومت کی قربانی کو جائز مانتا تھا اور منتظر تھا کہ کب وہ مقدس انگلی اٹھتی ہے۔ مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ مگر شیخ جی بھی اپنے عشق میں بڑے پکے ہیں۔ انہوں نے ابھی تک اپنے یار کے آستانے سے تعلق نہیں توڑا اور وہاں پر ہی دھونی رمائے ہوئے ہیں اس امید پر کہ شاید ان کی انگلی اٹھتی نظر آئے۔ اب یہ تو نہ ہوا البتہ شیخ جی کو اپنے مرشد آرمی چیف سے ہاتھ ملانے کا جو موقع ملا تو سمجھ لیں انہیں متاع حیات مل گئی۔ یہی عاشق صادق کی پہچان ہے کہ وہ محبوب کو دیکھ کر ہی سیر ہو جاتا ہے۔ اور اپنے سارے غم بھلا دیتا ہے۔
…٭…٭…٭…٭…
بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے پاک چین معاہدوں کو پنجاب چین معاہدے قرار دیدیا۔
لیجئے جناب اب چھاننی بھی کوزے کو ’’دوموریا‘‘ ہونے کے طعنے دینے لگی۔ یہ بلوچستان کے ارکان اسمبلی کا حق ہے کہ وہ جس مسئلے پر چاہے خامہ سرائی کریں‘ بیان بازی کریں مگر جناب پہلے اپنے گریبان میں بھی تو جھانک کر دیکھیں۔پنجاب اور چین میں معاہدوں کی پھبتی کستے ہوئے کبھی ان ارکان اسمبلی نے اپنے اپنے علاقوں کی حالت زار پر بھی توجہ فرمائی ہے۔ جہاں کے عوام ہاتھ ہی نہیں جھولیاں اٹھا اٹھا کر شہباز شریف جیسا وزیر اعلیٰ مانگتے ہیں تاکہ انکے علاقوں میں بھی ترقیاتی کام ہوں۔
یہ شہباز شریف نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ وہ بطور وزیر اعلیٰ اچھا کام کرتے ہیں تو دنیا ان کو داد دیتی ہے اور پنجاب میں ہونیوالے ترقیاتی کام دیکھ کر ہی دوسرے صوبوں کے عوام انہیں یاد کرتے ہیں۔ اور تو اور ہمارے مولانا فضل الرحمن صاحب نے بھی انہیں یونہی تو مین آف دی میچ قرار نہیں دیا۔ انکی ساری بھاگ دوڑ اپنے صوبے کی تعمیر و ترقی کے لئے ہوتی ہے۔ جسے ہماری روایتی اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ مگر چلیں سو فیصد نہ سہی ان کی بھاگ ڈور سے 50 فیصد کام تو ہو ہی جاتے ہیں۔
ورنہ جتنا فنڈ اور جتنی سرکاری و عالمی امداد بلوچستان کو ملی وہ شاید ہی کسی اور صوبے کو نصیب ہوئی ہو۔ حالانکہ آبادی کے حساب سے تو یہ چھوٹا صوبہ ہے۔ مگر لگتا ہے ہر حکمران نے رقبے کے لحاظ سے یا پھر بلوچستان کے نوابوں، سرداروں اور حکمرانوں کی جیبوں کے حساب سے ان کو نوازنے کی پالیسی جاری رکھی۔ گودار بھی بلوچستان کا حصہ ہے۔ اسکی ترقی کیلئے پورے صوبے پر اثرات پڑینگے۔ پاک چین معاہدے صرف پنجاب کیلئے ہی نہیں پورے پاکستان کیلئے ترقی اور خوشحالی کا پیغام لائیں گے۔ ان پر برسنے کے اور بھی بہت سے راستے ہیں۔ مگر اس سے قبل ذرا یہ ارکان اسمبلی اپنے اپنے علاقوں کی قسمت تو بدلنے کا سوچیں جہاں کروڑوں، اربوں روپے سالانہ ترقیاتی فنڈز ملنے کے باوجود دور دور تک ترقیاتی کاموں کے آثار تک نہیں ملتے۔ آخر یہ رقم جاتی کہاں ہے۔ کچھ اس کا بھی جواب ہے کسی کے پاس۔