بدھ ‘ 22 جمادی الثانی 1438 ھ‘ 22 مارچ 2017ئ
پنجاب پولیس کو نئی رنگ کی وردیاں ملنا شروع
وردی تبدیل کرنا اتنا ضروری نہیں تھا جتنا پولیس کا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر خیر دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ وردی کا رنگ بدلنے سے ہو سکتا ہے پولیس والوں کے روئیے بھی بدل جائیں۔ درون خانہ واقفان حال اسے بھی ٹھیک ٹھاک کمیشن کھانے کا نیا طریقہ قرار دے رہے ہیں۔ بقول شخصے پورے پنجاب میں لاکھوں پولیس والے ہیں اب ان کیلئے لاکھوں میٹر کپڑے کی خریداری ہو گی۔ پھر سلائی ہو گی تو اس پر رقم بھی کروڑوں ہی کی لگے گی۔ اس کا کمیشن بھی کروڑوں میں ہی بنے گا۔ یوں وردی کے ساتھ ساتھ بہت سے پولیس افسران کے بنک اکاﺅنٹس کے فگرز بھی بدلیں گے جبکہ عام کاکا شپائی کی صرف وردی ہی بدلے گی۔ خدا کرے وردی کی تبدیلی پنجاب پولیس کے روئیے میں بھی تبدیلی لائے۔ اچھا ہوا کہ حکومت نے وہ کالی وردی تبدیل کر دی جس کی وجہ سے پنجاب پولیس کے دل بھی کالے ہو گئے تھے۔ ویسے بھی اس وقت پولیس کی قربانیوں کی وجہ سے عوام کے دل میں ان کےلئے ایک گوناں محبت کا احساس بیدار ہواہے باوجود اسکے کہ....
کوئی پہرہ نہیں فصیلوں پر
شہر اندر سے ہے حراست میں
لوگ پولیس کی سابقہ کوتاہیوں کو فراموش کرکے انہیں گلے لگانے کو تیار ہیں۔ پولیس نے وردی کےساتھ ساتھ اگر رویہ بھی بدل لیا تو عوام اور پولیس دو بچھڑے بھائیوں کی طرح ایک دوسرے سے گلے ملتے نظر آ سکتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
پنجاب میں وال چاکنگ اور پوسٹر لگانے پر پابندی جرمانے اور سزا کا اعلان
یہ پابندی اگر لگ گئی تو عوام الناس دانت سے لےکر دل اور گردے تک کے شافی علاج کے اشتہارات کہاں سے پڑھیں گے۔ شادی بیاہ سکولوں میں داخلے سے لے کر خرید و فروخت کے خواہشمند جلسے اور جلوس کے شائقین، عرس اور میلوں کے پرستار کہاں سے معلومات حاصل کر پائیں گے۔ یہ خوبصورت دیواریں جو اشتہار بازوں کی مہربانی سے ہفت بیاں قسم کے نعروں اور اعلانات سے بھری ہوتی ہیں انہیں مزید بدنما کون کرے گا۔ پابندی لگ گئی تو پھر موت کا منظر اور جنت کے نظاروں کے پہلو میں سردیوں میں گرما گرم قسم کی فلموں کے سنسنی خیز اشتہار کون چھاپے گا۔ بیماریوں کا علاج اور بے مثال طاقت کا خزانہ کہاں ڈھونڈا جائے گا۔ ہمارے عیار قسم کے نیم خواندہ اشتہار بازوں نے جس طرح شہروں اور دیہات میں دیواروں کو خبرنامہ بنایا ہے۔ اب اس سے عوام کو نجات ملے گی ورنہ ایسے غیر اخلاقی اور واہیات قسم کے اشتہارات پر نظر ڈالتے ہی کپکپی طاری ہونے لگتی ہے۔ جیسے ان بدبختوں نے دیواروں پر لکھے ہوتے ہیں۔ قانون تو شاید یہ پہلے بھی تھا مگر اس پر عملدرآمد کبھی نہیں ہو سکا۔ لے دے کے صرف فرقہ ورانہ نعروں کے لکھنے پر قدغن نظر آئی۔ اب مکمل طور پر دیواروں کو صاف کرنے کے اس اعلان پر خدا کرے عمل ہو اور شہر صاف ستھرا نظر آئے اور عوام کو ان بدنما اشتہاروں سے نجات ملے۔
شرجیل میمن ضمانت کے باوجود گھبرائے گھبرائے نظر آئے۔
یہ تو شکر کریں انکی ضمانت کنفرم ہو گئی ورنہ گھبرانے کےساتھ ابھی تک لتاڑے بھی جا چکے ہوتے۔ انکی واپسی نے ایک بات تو واضح کر دی ہے کہ وہ بھی حکومت اور پیپلز پارٹی کی نورا کشتی کے سبب باہمی افہام و تفہیم کے اس فارمولے کے تحت وطن واپس آئے ہیں جس فارمولے کے تحت ماڈل گرل ایان علی ملک سے فرار ہوئی۔اب شرجیل میمن کی آمد کے بعد امید ہے ڈاکٹر عاصم کی طبیعت مزید ناساز رہنے لگے گی۔ انکی سماعت اور بینائی پہلے ہی متاثر بتائی جاتی ہے۔ گردن اور درد کمر نے ان کو ویسے ہی شکنجہ میں کس رکھا ہے۔ اب انہیں بھی باہر علاج کےلئے جانے کی راہ جلد کھلتی نظر آئے گی۔ یہ سب کچھ جس طرح ہو رہا ہے اس کے بعد سب کو حکومت کیخلاف ہتھ ہولا رکھنے کی حکمت عملی بھی سمجھ آنے لگی ہے۔ گزشتہ روز ضمانت سے رہائی پر بھی شرجیل میمن کی باڈی لینگوئج بتا رہی تھی کہ وہ گھبرائے ہوئے ہیں انہیں ڈر تھا کہیں انہیں کوئی ادارہ اچک کر نہ لے جائے۔ آخر معاملہ 5 ارب کا ہے کوئی 25 پیسے کا نہیں۔ اسکے باوجود شرجیل میمن جی ایسے چلے آئے گویا کوئی بات ہی نہیں۔ ان کا آنا....
کوئے جاناں میں سوگ برپا ہے
کہ اچانک سدھر گیا ہوں میں
والی بات لگتی ہے۔ مگر ان کا گھبرانا سارے بھید کھول رہا ہے۔
٭....٭....٭....٭
خواجہ سراﺅں کو چھیڑنے پر قید و جرمانے کا بل پنجاب اسمبلی میں پیش
اب بھلا جب یہ لوگ رنگ برنگے بھڑکیلے لباس اور میک اپ کے ساتھ ....
میرے چرچے گلی گلی تھاں تھاں
میرے ورگی ہور نہ کوئی میں آں نورجہاں
کہتے ہوئے ناچتے گاتے پھریں گے تو کس کم بخت کا دل نہیں چاہے گا ان سے چھیڑ چھاڑ کرنے کو‘ مخول کرنے کو۔ ہاں اگر یہ چھیڑ چھاڑ بدمزگی اور بداخلاقی تک پہنچ جائے تو اسکے سدباب کیلئے یہ قانون سازی ایک اچھا عمل ہے۔ بد قسمتی تو یہ بھی ہے کہ خواجہ سراﺅں کو ہمارے معاشرے میں صرف شادی بیاہ اور ختنے وغیرہ کی تقریبات میں ناچنے گانے تک محدود رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے اس طبقے میں کج روی پھیلی ہے۔ دیگر ممالک یعنی دنیا بھر میں یہ عام انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں ہمارے ہاں البتہ انہیں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس قانون سازی کے بعد اب دیکھتے ہیں کوئی کیسے خواجہ سراﺅں کو چھیڑے گا اور ان کو پیچھے سے اوئے کھسرا اوئے کہہ کر پکارے گا۔ حالانکہ انہیں باعزت طریقہ سے شی میل بھی کہا جا سکتا ہے جس پر اکثر بیگم نوازش علی جیسے پڑھے لکھے خواجہ سرا نہایت مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اب تو یہ الفاظ بھی چھیڑ چھاڑ کے زمرے میں ہی شمار ہونگے۔ عام طور پر تو دیکھا گیا ہے کہ یہ تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے ہمارے معاشرے میں اختیارات بھی کچھ زیادہ رکھتے ہیں۔ چھیڑ چھاڑ ہمیشہ انکی طرف سے ہی ہوتی ہے۔ عام آدمی تو انہیں دیکھ کر ہی چھیڑ چھاڑ کے خوف سے راہ بدل لیتا ہے۔