جمعرات‘ 26 رمضان المبارک ‘ 1438ھ‘ 22 جون 2017ء
جے آئی ٹی جیسے سوالات پوچھے گی ویسے جوابات دوں گا: رحمن ملک
ملک صاحب ذرا بچ کے۔ دھیان رہے کہیں یہ آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا والی بات نہ ہو جائے ۔جے آئی ٹی والوں نے آپ سے آپ کی خفیہ دولت، جائیداد اور آف شور کمپنیوں کا احوال بھی پوچھ لیا تو پھر کیا ہو گا۔ آپ کیا کریں گے۔ کہیں میاں صاحب کی حکومت کو کنوئیں میں دھکیلنے کے شوق میں آپ خود جال میں نہ پھنس جائیں۔ ویسے بھی بڑے بڑے لوگوں کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں۔ خفیہ بنک اکاﺅنٹس ہیں۔ کہیں آپ کسی ٹریپ میں آ کر ان کے خلاف بھی نہ بول پڑیں۔ کیا مسلم لیگ، کیا تحریک انصاف کیا پیپلزپارٹی اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ اب چونکہ آپ بھی سابق دور میں وزیر داخلہ تھے آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اس گنگا میںکون کون نہایا ہے۔ یہ جے آئی ٹی والے کہیں آپ کو گھیر کر پھنسانے کی کوشش کرنے لگے تو آپ بھی کہیں وعدہ معاف گواہ نہ بن جائیں۔ پیپلزپارٹی والے آپ کو نہیں چھوڑیں گے کیونکہ ان کے اکاﺅنٹس اور جائیدادوں سمیت انکے مرکزی رہنما آصف زرداری بھی اس وقت باہر ہیں۔ کہیں ان کو نہ پھنسا دینا۔ انہیں تو اپنے سوئس اکاﺅنٹس اور سرے محل جیسی جائیدادوں کی فکر پڑ گئی ہو گی کیونکہ اپنا بندہ ہونے کی وجہ سے ملک صاحب سے زیادہ کون اندر کی معلومات رکھتا ہو گا۔ امید ہے جے ٹی آئی والے ملک جی پر ہتھ ہولا رکھیں گے اور سوال جواب صرف مسلم لیگ والوں تک ہی محدود ہونگے یوں ملک جی کو کھل کر بولنے کا موقع ملے گا....
٭....٭....٭
خیبر پی کے حکومت گندھارا آرٹ کے قیمتی نمونے بیرون ملک بھجوا رہی ہے: نعیمہ کشور
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کی ممبر کی بھی چھٹی حس لگتا ہے کافی تیز ہے کہ انہیں اس خفیہ معاملے کا پتہ چل گیا۔ چند سال پہلے بھی کراچی ایئرپورٹ پر درجنوں کی تعداد میں گندھارا تہذیب کے نمونے قیمتی بدھا کے مجسمے پکڑے گئے تھے جو بیرون ملک اسمگل کئے جانے تھے۔ ابھی تک معلوم نہیں ہوا کہ یہ کام کون کر رہا تھا اور کس کےلئے کر رہا تھا۔ یہ مجسمے شاید آج بھی کراچی ایئرپورٹ کے کسی کباڑخانے میں بے دردی سے بکھرے پڑے ہیں۔ کیا کوئی باشعور قوم اپنے قومی تاریخی ورثے کی اس طرح بے قدری کرتی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر قدیم آرٹ کے نمونے سرکاری افسران، حکمران اور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ انکے امیر کبیر دوستوں کے گھروں میں ملیں گے۔ جو انہوں نے ظاہر ہے ناجائز طریقے سے ہی حاصل کیے ہیں۔ اب نعیمہ کشور نے جو الزام لگایا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے کو چاہیے کہ فوری ایکشن لیں۔ مگر کیا یہ ممکن ہو گا۔ کیا پتہ ان کی اپنی حکومت کے زیرسایہ ہی یہ قیمتی نوادرات چوری چھپے بیرون ملک میں انکے رہنما¶ں کے عزیز و اقارب یا ان کے اپنے گھروں کی زینت بننے کیلئے بھجوائے جا رہے ہوں۔ اب تو ڈر لگتا ہے کہیں یہ ظالم لوگ سندھ سے قائم علی شاہ اور خیبر پی کے سے اسفند یار ولی پرویز خٹک کو بھی قدیم آرٹ کا نمونہ سمجھ کر نہ باہر فروخت کر دیں۔ ویسے پنجاب سے مصطفی کھر اور بلوچستان سے نواب اسلم رئیسانی بھی اس فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔ کیا پتہ کوئی مافیا ان سب کو بھی آثار قدیمہ سمجھ بیٹھے اور دام کھرے کرنے کی کوشش کرے۔
٭....٭....٭
کرپشن کیس کی سماعت کا وقت آتے ہی شرجیل میمن بیمار ہو گئے
یہ تو بری بات ہے۔ چند ماہ ہی ہوئے ہیں جب شرجیل میمن نہایت دھوم دھڑکے سے وطن واپس آئے تھے۔ اس اعلان کے ساتھ کہ وہ ہر الزام اور مقدمے کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ انکے ہاتھ صاف ہیں۔ اس وقت وہ شیر بن رہے تھے تو اب بھیگی بلی بننے کی کیا ضرورت ہے۔ اب شیر بنیں شیر اور خم ٹھونک کر ذرا عدالتوں میں پیشی کی تیاری کریں۔ جہاں بہت سی
پیاسی نگاہوں کو تیرا انتظار ہے
آ جا تیری یاد میں دل بے قرار ہے
یادش بخیر شرجیل جی آئے تھے تو پیپلز پارٹی والوں نے ان کا شاندار استقبال کیا تھا جیسے دولہا کی بارات کا کیا جاتا ہے۔ ان کی تاج پوشی بھی ہوئی تھی۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ان پر اربوں روپے کرپشن کے الزامات ہیں۔ مگر واہ ری ہماری سیاست کہ چور کو بھی قطب ثابت کر دیتی ہے۔ اب جیسے انہیں عدالت نے طلب کیا پتہ چلا موصوف بیمار ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں۔ اس لئے عدالت نے بھی شاید ان کی شدید علالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے مقدمہ کی سماعت کمال فیاضی سے 20 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔ اب ایک ماہ تک شرجیل صاحب موج میلہ کریں۔ آخر پرویز مشرف بھی تو ایسی ہی بیماری کی وجہ سے تاریخوں پر تاریخیں ڈلواتے رہے ہیں۔ جب انہیں کسی نے نہیں پوچھا تو شرجیل جی کو کون پوچھے گا۔ بس انہیں اگلی پیشیوں پر ایک عدد گردن کے کالر ایک عدد چھڑی اور ایک عدد ویل چیئر یا سٹریچر کی ضرورت پڑے گی۔ تاکہ انکی مدد سے وہ عدالت کو اپنی شدید بیماری کا احساس دلا سکیں۔ لوگوں کا کیا وہ بھی اربوں کی کرپشن بھول کر بیمار کی حالت دیکھ کر اس سے اظہار ہمدردی کرتے نظر آئیں گے۔
٭....٭....٭
سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی تعیناتی، رانا ثناءاللہ کی قیادت میں کمیٹی کی تشکیل
یہ فیصلہ شاید ہر کام نمٹانے کی پالیسی کے تحت ہی کیا گیا ہو گا۔ کوئی سوچے کہ رانا ثناءاللہ جی کے پاس ایسی کون سی خاص تعلیمی مہارت ہے جس سے انہیں نہایت اعلیٰ سطح کے تعلیمی اداروں کے سربراہوں کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کی سربراہی سونپی گئی ہے۔ یہ تو عابد شیر علی اور انکے والدصاحب کو جلانے کی کھلم کھلا کوشش ہے۔ اس کام کے لئے تو بڑا معتبر نام ہونا چاہیے تھا جس کی علمی صلاحیتوں کا زمانہ معترف ہوتا۔ رانا جی کے پاس تو صرف ماڈل ٹا¶ن سانحہ کا تمغہ حسن کارکردگی ہے۔ ویسے بھی ٹھیک ہے اگر رانا مشہود جیسے علم دوست وزیرتعلیم ہو سکتے ہیں تو رانا ثنا بھی تعلیمی اداروں کے سربراہوں کے انتخاب کا حق رکھ سکتے ہیں۔ حکومت پنجاب ایک طرف تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کے عزم پر قائم ہے تو کیا یونیورسٹیاں تعلیمی میدان میں سب سے اہم کردار ادا نہیں کرتیں۔ انہیں مکمل طور پر صرف سیاستدانوں کے ہاتھ میں نہیں دیا جا سکتا۔ اعلیٰ ترین دماغوں کو یہاں لا کر بٹھائیں پھر دیکھیں یہ یونیورسٹیاں کیسے عالمی سطح پر اپنا لوہا منواتی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جو شہباز کی نگاہ بھی رکھتے ہیں۔ اپنے اردگرد سے ہٹ کر صوبے میں نظر دوڑائیں انہیں ایک سے بڑھ کر ایک علم پرور گوہر نایاب مل سکتا ہے۔ انہیں جمع کر کے ان کے ذمے یہ کام لگائیں۔ تاکہ ہماری یونیورسٹیوں کو اعلیٰ دماغ وائس چانسلر ملیں جو ان اداروں کو سیاسی مداخلت اور لسانی، مذہبی و سیاسی پارٹیوں کی دسترس سے محفوظ رکھ کر پڑھا لکھا پنجاب اور آگے بڑھو پنجاب کے نعروں کو عملی تعبیر دے سکیں۔
٭....٭....٭