پیر‘ 4؍ جمادی الاّول ‘1439 ھ‘ 2 2 ؍ جنوری 2018ء
مال روڈ پر جلسہ: خالی کرسیاں حکمت عملی کا حصہ تھیں: طاہر القادری
’’شیخ الاسلام‘‘ نے گزشتہ روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کئی اسراروں سے پردہ اٹھایا اور پیش گوئیاں بھی کیں جنہیں ان کے عقیدت مند الہامات کہتے ہیں۔ دراصل ہم دنیا داروں کی آنکھوں پر پڑے پردے، دوربینی بلکہ غائب کی باتیں سمجھنے کی راہ میں آڑ بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی دوران گفتگو کسی نادان نے اپنی طرف سے یہ کہہ کر بڑا تیر مارا کہ جلسہ فلاپ تھا اور اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ کرسیوں کی بڑی تعداد خالی تھی، معدن معارف… پیر آف کینیڈا شریف نے بڑی متانت سے، جو ان کی شناخت بن چکی ہے ارشاد فرمایا اے ناواقف اسرار باطنیہ! خالی کرسیاں حکمت عملی کا حصہ تھیں۔ حکمت عملی کیا تھی؟ حاضرین کے پلے تو کچھ نہ پڑا لیکن ہم جو کہ ان کے دیرینہ نیازمند اور مزاج شناس ہیں سمجھ گئے ’’حکمت عملی‘‘ محض دو حرف نہیں بلکہ اپنے اندر معانی کا سمندر لئے ہوئے ہیں۔ دراصل یہ خالی کرسیاں، مردان غیب کے لئے تھیں جو ہر مشکل وقت میں حضرت قبلہ کی مدد کیلئے ’’عالم بالا‘‘ سے اتارے جاتے ہیں۔ حکمت عملی کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ مخالفین کی نظر جب کرسیوں پر پڑے تو وہ حضرت کے باطنی تصرف سے اس قدر مسحور ہوں کہ انہیں معمولی مجمع بھی لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آنے لگے۔ حضرت والا نے اس مجلس میں حسب معمول چند پیش گوئیاں بھی کیں جن کا ذکر ہم اس لئے نہیں کر رہے کہ جب وہ پوری ہوں گی، تو کل عالم کو پتہ چل جائے گا، کیونکہ اپنی عمر کے تعین سمیت ان کی ہر پیش گوئی حرف بحرف ’’پوری‘‘ ہو چکی ہے۔ ایسی دھرتی کی خوش بختی کا کیا کہنا جس پر ایسی ہستیاں بستی ہوں!
………………………………………………
لاہور میں پولیس نے دوران تلاشی شہری کے سرعام کپڑے اتروا لئے، اعلیٰ حکام نے چار اہلکار معطل کر دیئے
لاہور میں پولیس ریسپانس یونٹ کے اہلکاروں کی تلاشی کے دوران ایک شہری سے تلخ کلامی ہو گئی جس پر انہوں نے سرعام اس کے کپڑے اتروا لئے۔ پولیس کے اس رویئے پر شہریوں نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اعلیٰ حکام کو بھی اپنی اس خاص طور پر تشکیل دی گئی فورس کی کارروائی پسند نہ آئی اور چاروں اہلکاروں کو گھر بھیج دیا۔ طرفین میں سے کسی نے بھی شائستگی کا ثبوت نہیں دیا۔ اگر پولیس تلاشی نہیں لے گی تو مشکوک لوگ کیسے پکڑے جائیں گے۔ اس پر پولیس سے جھگڑنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ دوسری طرف اگر پولیس اہلکاروں نے میٹھی زبان استعمال کی ہوتی یا پیار محبت سے تلاشی لینے کی درخواست کرتے، تونوبت تلخ کلامی تک نہ پہنچتی جس کے نتیجے میں شہری اور پولیس اہلکار اپنے اپنے ’’گھروں‘‘ کو چلے گئے۔ دراصل یہ واقعہ پولیس اہلکاروں کی تربیت میں سقم کے باعث پیش آیا جہاں زیرتربیت کیڈٹوں سے جسمانی مشقیں کرائی جاتی ہیں، ڈنڈ بیٹھکیں لگوائی جاتی ہیں، دوڑ کے مقابلے ہوتے ہیں وہاں اگر کچھ وقت ان کی اخلاقی تربیت پر بھی صرف ہو جائے تو سرعام ایسے تماشے دیکھنے میں نہ آئیں۔ انگریزوں کے دور سے ایک مثل چلی آ رہی ہے کہ سلامتی چاہتے ہو تو ’’گھوڑے کی پچھاڑی اور پولیس کی اگاڑی سے بچو‘‘۔ اس کی تشریح اس لئے ضروری نہیں کہ شاید ہی کوئی ہو گا جو اس میں پوشیدہ حکمت سے آگاہ نہ ہو۔
………………………………………………
امریکہ افغانستان میں ناکام ہو چکا ہے، حامد کرزئی نے پاکستان کو روسی اسلحہ کی فراہمی کی حمایت کر دی۔
کتنی دیر تک تو ہمیں یقین ہی نہ آیا کہ حامد کرزئی اور ان کے منہ سے پاکستان کیلئے کوئی کلمہ خیر نکلے اور سب سے بڑھ کر امریکہ کو یہ کہیں کہ وہ افغانستان میں ناکام ہو چکا ہے، لیکن جب پوری خبر پڑھی تو آنکھیں کھلیں کہ کرزئی صاحب کا نہ تو دہن بدلا ہے اور نہ ذہن۔ موصوف نے اپنے دور صدارت میں جو دو بڑے کام کئے ان میں سے ایک پاکستان سے افغانستان کو دور کرنا اور دوسرا بھارت کو پورا افغانستان سونپ دینا تھے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کا عرصہ اور طالبان کا دور حکومت پاکستان کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے گزارا لیکن جب موصوف امریکہ کی مہربانی سے افغانستان کے صدر بنے تو پاکستان سے خدا واسطے کا بیر لگا لیا۔ پاکستان نے افغانستان کو شدت پسندوں سے نجات دلانے کیلئے دہشت گردی کے خلاف خوفناک جنگ لڑی اور اس راہ میں بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دیں۔ سارے عالم نے خطے اور پوری دنیا کے امن کے لئے پاکستان کی ان قربانیوں کا اعتراف کیا، سوائے بھارت اور حامد کرزئی کے۔ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کا شوشہ بھی موصوف کا چھوڑا ہوا ہے جس کی تائید مزید بھارت کی طرف سے ہوئی اور جسے امریکہ نے مضبوطی کے ساتھ پلے باندھ لیا ہے۔ پاکستان لاکھ صفائیاں پیش کرے امریکہ نے مان کر نہیں دینا۔ ہم بھی آستین میں کیسے کیسے سانپ پالتے رہے!
………………………………………………
’’دنیا کی خوبصورت ترین فوجی خاتون‘‘
اس عنوان کے تحت چھپنے والی خبر میں بتایا گیا ہے کہ لارن وکٹوریہ نامی لڑکی کو دنیا کی خوبصورت ترین فوجی خاتون قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ 2011ء سے 2012ء کے درمیان افغانستان میں تعینات رہی۔ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا فوجی حسینہ نے کون کون سے معرکے سر کئے البتہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے حسن کے جلوے دکھا کر بڑے بڑے سورمائوں کو ڈھیر کر رہی ہے! دنیا کے اکثر ملکوں کی افواج میں خواتین کام کر رہی ہیں، بری ہی نہیں بلکہ فضائیہ اور بحریہ میں بھی… لیکن کبھی کسی کی شکل و صورت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ لارن وکٹوریہ جسے دینے والے نے بے پناہ حسن سے نوازا، اسے فوج کی بجائے ہالی ووڈ میں ہونا چاہئے تھا۔ حسن بذات خود بہت بڑی اہلیت ہے، عین ممکن ہے کہ وہ اس کے بل بوتے پر کسی بڑی پوسٹ پر پہنچ جائے، کوئی بعید نہیں کہ کسی دن جنرل ہی بن جائے لیکن پھر بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’رائٹ مین (بلکہ گرل) فار دی رانگ جاب‘‘ ہے۔ ویسے تو وائٹ ہائوس میں فوجیوں کی بھی مختلف انتظامی اور سکیورٹی عہدوں پر تعیناتیاں ہوتی رہتی ہیں۔ خوش قسمتی سے آجکل وہاں کلنٹن کے بعد بڑے ’’قدردان‘‘ قسم کے لوگ آبیٹھے ہیں، جس کرسی پر چاہیں گی، بٹھا دی جائیں گی۔ ویسے ہمارا مخلصانہ مشورہ تو یہی ہے کہ وہ اپنی جاب بدلیں۔ بے پناہ حسن ایسی چیز نہیں کہ جسے مورچوں میں ضائع کر دیا جائے!