اتوار ‘ 3؍ جمادی الاّول ‘1439 ھ‘ 2 1 ؍ جنوری 2018ء
ٹی وی ٹاک شو دیکھتا ہوں نہ اخبار کا مطالعہ کرتا ہوں، اس لئے خوش رہتا ہوں: شاہد خاقان عباسی
سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم ٹی وی ٹاک شو اور اخبار سے دور رہتے ہیں تو پھر وہ کیسے جان پاتے ہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، عام آدمی کے مسائل اور اس کی سوچ کیا ہے…؟ اس طرح تو وہ سیاسی مخالفین کے جلسوں میں کوثر و تسنیم میں دھلے ارشادات کی دید اور سماعت سے بھی محروم رہتے ہوں گے۔ اگرچہ انہوں نے یہ کہہ کر ہماری طرح قارئین کی بھی حیرانی دور کر دی کہ ’’حکومتی نظام چلانے کیلئے لمحہ بہ لمحہ معلومات حاصل ہوتی رہتی ہیں‘‘ مطالعہ کا شوق بڑی خوبی کی بات ہے مگر ہمارے سیاستدانوں میں بہت کم لوگ ہیں جن کی کتاب سے دوستی ہو، کتاب خریدنا تو درکنار اگر کسی نے پیش بھی کی تو اسے بھی ادھر ادھر پھینک دیا جہاں سے کچھ عرصہ بعد گھر کے ملازمین اٹھا کر ردی میں بیچ دیتے ہیں۔ کسی زمانے میں سینئر مسلم لیگی اور قائداعظم کے ساتھی میاں محمد ممتاز دولتانہ کی لائبریری بڑی مشہور تھی، کوئی نہیں جانتا ان کی رحلت کے بعد اس کا کیا ہوا؟ اور بھی بعض سینئر سیاستدان اچھی لائبریریوں کے مالک اور مطالعہ کے شوقین ہو گزرے ہیں۔
وزیراعظم کی طرح عوام کو بھی مطالعہ کا شوق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں گلی گلی محلہ محلہ عوامی لائبریریاں ہوتی ہیں جہاں ہر کوئی مطالعہ کا شوق پورا کر سکتا ہے۔ پاکستان میں اور خصوصاً لاہور میں جو بڑی بڑی لائبریریاں ہیں وہ قدردانوں کی راہ تکتی رہتی ہیں۔ باغ جناح میں بہت بڑی لائبریری ہے جس میں ہر موضوع پر لاتعداد کتابیں ہیں، باغ کا ہر گوشہ لوگوں سے بھرا ہو گا سوائے لائبریری کے۔
٭…٭…٭…٭
عمران خان 443 دنوں میں سے صرف 20 دن ایوان میں آئے البتہ 57 لاکھ 30 ہزار روپے تنخواہ وصول کر لی
ایک اور خبر کے مطابق ان کے ’’جانثاروں‘‘ یعنی پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی نے بائیکاٹ اور دھرنے کے باوجود مراعات اور تنخواہ کی مد میں 32 کروڑ روپے وصول کئے۔ قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 25 ہے لیکن تین چار کو چھوڑ کر باقی ارکان پارلیمنٹ کی کارروائی میں بہت کم دلچسپی لیتے ہیں۔ جب لیڈر کی جمہوریت کے سپریم ادارے میں دلچسپی کا یہ عالم ہو کہ اسکی حاضری کی شرح 4.5 رہی ہو تو اس کی جماعت کے ارکان سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک دفعہ پی ٹی آئی کے سارے ارکان مستعفی ہو گئے اور کئی ماہ تک ایوان کا رخ نہیں کیا لیکن جب استعفے واپس لے کر ایوان میں آئے تو اپنی تنخواہ اور مراعات پوری پوری وصول کیں۔ یار لوگوں نے پارلیمنٹ کو ڈیرہ اور چوپال سمجھ رکھا ہے جہاں وقت گزاری کیلئے چلے آئے، گھڑی دو گھڑی رکے، حکومتی ارکان پر پھبتیاں کسیں، مذاق اڑایا، تضحیک کی اور نکل آئے۔ قانون سازی میں شرکت کو فرض منصبی کبھی نہیں جانا۔ قومی اسمبلی کی ایسی ناقدری اور بے حرمتی شایدہی کبھی ہوئی ہو۔ یہاں تک بھی خیر تھی لیکن گزشتہ دنوں ’’شیخ الاسلام‘‘ کی احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جمہوریت کے علمبردار اور عوامی حقوق کے چیمپئن قبلہ خان صاحب نے پارلیمنٹ کا ذکر خیر جس لہجے اور انداز میں کیا اسے دہرانے کو طبیعت ہی نہیں مانتی البتہ ایک کہانی یاد آ گئی… بڑھیا ترکاری اور سبزی کی ٹوکری ہاتھ میں لٹکائے جا رہی تھی کہ ایک سائیکل سوار چھوکرے کو شرارت سوجھی اور اس نے سائیکل بڑھیا سے ٹکرا دی۔ بڑھیا کی ٹوکری گری تو چیزیں بکھر گئیں۔ اس پر لڑکے نے آوازہ کسا… مائی جی! آپ کی ٹوکری گر گئی ہے۔ بڑھیا نے ترنت جواب دیا… بیٹا! میری ٹوکری نہیں، تمہارا اخلاق گرا ہے!
٭…٭…٭…٭
نوازشریف خوش قسمت، کمزور اپوزیشن ملی، شور سمجھ سے بالا ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی حضرت سراج الحق بھی خوب ہیں، تجاہل عارفانہ میں ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ یہ یقین کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے کہ جناب والا! سید مودودی علیہ الرحمہ کی گدی پر بیٹھے ہیں، نواز شریف اگر نااہل ہو گئے ہیں تو انہیں بدقسمت کہنا زیادتی ہو گی۔ وہ گر گئے ہیں تو اٹھ بھی سکتے ہیں۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ شکست خوردہ فاتح بن گئے بشرطیکہ انہیں شکست کو فتح میں بدلنے کا ہنر آتا ہو۔ جہاں تک کمزور اپوزیشن کا تعلق ہے تو یہ حقائق کو مسخ کرنیوالی بات ہے۔ نواز شریف کی حکومت کو چار سال کے دوران اپوزیشن کے دھرنوں، ریلیوں اور جلسے جلوسوں کا جس طرح مقابلہ کرنا پڑا، اسکے بعد بھی اگر کوئی کہتا ہے کہ اپوزیشن کمزور تھی تو اسے’’یملا جٹ… لے گئے چور‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ رہ گئی بات شور کی جو آپ کی سمجھ سے بالا ہے مگر آپ سے کہیں کم ذہین بھی سمجھ رہے ہیں کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ یہی موضوع گفتار کا عنوان ہے جسے آپ شور سمجھ بیٹھے ہیں۔ اگر آپکے ساتھ ایسا ہوتا تو پتہ لگتا کہ آپ کتنا چپ رہتے۔ آپ ماشاء اللہ دین کا کافی علم رکھتے ہیں، سیرت مبارکہ سے بھی آگاہ ہونگے، ذرا انکی روشنی میں اور زمانہ کی روش کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’امین اور صادق‘‘ کی تشریح فرما دیں۔ یہ بھی پیش نظر رکھیں کہ آپ اکثر ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں جن کی فوراً تردید ہو جاتی ہے۔ کیا یہ عمل کذب کی ذیل میں آتا ہے یا صادق کے زمرے میں؟ آپ جن کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں ’’لعنت ملامت‘‘ ان کا وطیرہ ہے۔ ذرا یہ بھی بتایئے گا صادق اور امین ایسے ہی ہوتے ہیں؟
٭…٭…٭…٭
بھارت: پاکستان کے حق میں نعرے بازی پر میونسپل کمیٹی کی چیئرپرسن شہلا طاہر کا ریمانڈ
شہلا طاہر بھارتی ضلع بریلی کے علاقے نواب گنج کی بلدیہ کی چیئرپرسن ہیں، ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے حق میں نعرے لگائے۔ ان پر غداری کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ستم بالائے ستم صرف شہلا ہی نہیں بلکہ ان کے شوہر اور 500 حامیوں کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں، بھارت کے مسلمان گزشتہ ستر سال سے ایسے مظالم برداشت کر رہے ہیں، انتہا پسندوں کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ جونہی کوئی مسلمان کسی شعبے میں آگے نکلتا ہے، کاروبار ہو یا سیاست، اس کو گرانے اور منظر عام سے ہٹانے کیلئے اس پر پاکستان سے محبت کا الزام جڑ دیا جاتا ہے۔ جس مسلمان کو مارنا مقصود ہو اس پر گائے ذبح کرنے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ انتہا پسند ہندوئوں کے مظالم کا شکار مسلمان ہی نہیں، عیسائی اور دلت بھی ہیں، معمولی معمولی بات پر مشتعل ہو کر عبادت گاہیں نذر آتش کر دینا، اقلیتی ارکان کو زندہ جلا دینا، کاروبار تباہ کر دینا عام ہے۔ بھارت کو سیکولر قرار دینے والوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ انکے بعد بھارت میں اقلیتوں سے ایسا غیرانسانی سلوک ہو گا۔ قائداعظم کی دوراندیشی کی داد دیجئے کہ کم از کم پاکستان اور بنگلہ دیش کے چالیس کروڑ مسلمانوں کو ان ظالموں سے ہمیشہ کیلئے نجات دلا دی، لیکن انڈین مسلمانوں اور خصوصاً حق خودارادیت کا مطالبہ کرنیوالے کشمیریوں پر بھارت کے شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے ظلم و ستم پر بہت دل کڑھتا ہے۔