جمعۃ المبارک‘23 ؍ رجب المرجب‘ 1438 ھ‘ 21 ؍ اپریل 2017ء
پانامہ کیس کا کتھارسس
پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد عدالت سے نکلتے ہوئے مسلم لیگی ارکان اسمبلی تو یوں چھلانگیں مارتے اچھلتے کودتے باہر آ رہے تھے جیسے کسی قید سے چھوٹے ہوں۔ یہ تو عدالتی احترام کا خیال تھا ورنہ ان کے بس میں ہوتا تو نعرے بازی کرتے باہر نکلتے اگرچہ عدالتی احترام کے حوالے سے ان کی عدالت پر حملہ کی یادیں ہنوز تازہ ہے۔ بہرحال سعد رفیق، طلال چودھری، مریم اورنگزیب، دانیال عزیز، کس کس کا نام لیں‘ سب نہال ہوئے جا رہے تھے۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ تو
لڈو ونڈدی پھراں میں گھرو گھری
’’پانامہ کیس توں‘‘ میرا ماہی ہو گیا بری
کی لے پر رقص کرتے لڈو بانٹتے پھرتے۔ دوسری طرف عمران خان صاحب ، سراج الحق، جہانگیر ترین اور شیخ رشید وغیرہ …؎
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے بہ تماشہ نہ ہوا
کے مصداق فیصلہ سننے کے بعد یوں غائب ہو گئے کہ لوگ شیخ رشید کے کاندھوں پر حکومت کا تابوت ڈھونڈتے رہ گئے۔بقول ان کے اب بھی وہ پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ یہ سب ایسے عدالت سے باہر نکلے کہ لوگوں کی نگاہوں کے ساتھ کیمرے کی آنکھ بھی انہیں ڈھونڈتی رہ گئی۔ ورنہ ایسے موقع پر تو یہ سب ہر پیشی کے بعد میڈیا کے سامنے زوردار بیانات دے کر پریس کانفرنس کرکے نواز شریف حکومت کے جانے کی نوید سناتے تھے۔ مگر گزشتہ روز تو یہ سب ایک لفظ بھی نہ کہہ سکے۔ حالانکہ ’’بڑی دھوم تھی ’’ان‘‘ کی گفتار کی‘‘
٭٭٭٭٭٭
پانامہ کیس کے فیصلے سے قبل عمران خان صاحب نوجوان نظر آنے کے شوق میں اپنے جم میں حسب معمول ورزش کے بعد خوب پسینہ بہا کر دھڑلے سے ناشتہ کرکے تیار ہو کر فیصلے سے آدھ گھنٹہ قبل بنی گالہ سے بارات کی شکل میں عدالت روانہ ہوئے تھے۔ اب انہیں کسی بزرجمہر نے مشورہ نہیں دیا تھا یا کسی میں ہمت نہیں تھی کہ ان سے کہتا جناب عدالتی فیصلہ سننے کے لئے جانے سے قبل بہتر ہوتا آپ دوگانہ نفل ادا کرکے اپنی کامیابی کی دعا مانگتے۔ کچھ ورد کر لیتے آپ نے کون سا فٹنس ٹیسٹ میں جانا ہے۔ اس کے برعکس وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ نے بھی حسب معمول صبح نماز فجر کے بعد فیصلہ آنے تک زیادہ تر وقت جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو سمیت دیگر دافع بلیات کے وظائف پڑھتے گزارہ ہو گا۔کیونکہ یہ ان کی روٹین ہے۔ اور پھر ان کی والدہ بقید حیات ہیں۔ اس پوائنٹ سے انہیں عمران پر برتری حاصل ہے۔ کہتے ہیں زندگی کے ہر موڑ پر والدین کی دعائیں سائبان بن کر یا مشکلات کے آگے ڈھال بن کر اولاد کو بچا لیتی ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوتا نظر آیا ہے۔ مریم نواز کی طرف سے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے والد کو مبارکباد دینے کا انداز بھی بھلا رہا اور میاں نواز شریف اور شہباز شریف کا مسکراتے ہوئے ایک دوسرے سے گلے ملنے کا انداز تو نرالا تھا جن کے چہروں پر چھلکتی خوشیاں چھپائے نہیں چھپتی تھیں۔
٭٭٭٭٭
ایک طرف متوالوں اور کھلاڑیوں کی جان فیصلے پر اٹکی ہوئی تھی دوسری طرف موج میلہ منانے والے جواری بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ انہیں تو بس موقع ملنا چاہئے خواہ میچ ہو، الیکشن ہو یا کوئی عدالتی فیصلہ۔ یہ اپنی اپنی بساط بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور مال کمانے کے چکروں میں پڑ جاتے ہیں۔پانامہ کیس کے فیصلے سے قبل ہی کروڑوں روپے کا جوا لگ چکا تھا۔ مسلم لیگی ویسے ہی لٹانے اور اڑانے سے زیادہ مال کمانے پر یقین رکھتے ہیں اس لئے وہ روایتی کنجوسی کے سبب میدان میں کم ہی آئے۔ اپریل کے مہینے کو وزرائے اعظم پر بھاری پڑنے کے خوف سے انہوں نے کھل کر میاں صاحب کی جیت پر جوا نہیں کھیلا۔ جبکہ کھلاڑی کھل کر کھیلنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ فرنٹ پر کھیلے اور خوب جی بھر کر کپتان پر دائو لگایا۔ انہیں یقین تھا کہ اب کی بار ان کا دائو چلے گا۔ اس لئے ان کی بڑی تعداد ’’ہے خود پہ بھروسہ تو اک دائو لگا لے‘‘ کے زعم میں بکیوں کے ہتھے چڑھے اوریوں جوئے کا ریٹ 30 اور 70رہا۔ مگر فیصلہ الٹ آ گیا اور یہ بیچارے بازی ہار گئے۔ اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ سب کچھ لٹاکے ہوش میں آئے تو کیا ہوا۔ اب تو ان کا غم غلط کرنے کا بھی کوئی اور راستہ نہیں۔
٭٭٭٭٭
فیصلہ آنے سے قبل ہمارے چند اینکرز اور میڈیا چینلز اور اخبارات تو پانامہ کیس کے حوالے سے نواز شریف حکومت آ ج گئی، ابھی گئی کی کیفیت برپا کئے رہتے تھے۔ یہ مدار المہام قسم کے لوگ صدر الصدور بنے۔حکومت کے خاتمے‘ وزیراعظم ہائوس کے خالی کرنے اور نااہل قرار دینے کی باتیں یوں کرتے تھے گویا فیصلہ لکھنے والوں کے ہاتھ میں یہی حضرات چوب قلم ہوں گے۔ فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد تو افواہوں کا رائے زنی کا وہ طومار بندھا کہ ہر اینکر افلاطون، سقراط، بقراط بنا نظر آنے لگا۔ ان کی باتیں سن کر خبریں پڑھ کر اور پروگرام دیکھ کر تو کمزور دل مسلم لیگیوں کو بھی اپنی پیاری راج دلاری حکومت کے جانے کے برے برے خواب آنے لگے تھے۔ ماسوائے چند بڑے دل گردے والوں کے باقی سب وزراء تک ایسے بدحواس لگ رہے تھے جیسے بم پھٹنے کے بعد ہجوم بدحواس ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے ذہنوں پر بھی یہ چند اینکرز اور اخبارات کے کالم نگاروں سمیت مخصوص میڈیا چینلز سوار تھے۔ اب فیصلے کے بعد دیکھ لیں بزعم خود عقل کل بننے والوں کی سیٹی گم ہو گئی ہے اور بدحواس متوالے مٹھائیاں تقسیم کرتے نظر آرہے ہیں۔