بدھ ‘28 ذوالحج 1438ھ‘ 20 ستمبر2017
کوئی حلوہ یا ہلکا نہ سمجھے 2018ءمیں متحدہ اصل دھمال کرے گی۔ فاروق ستار
یہ حلوے والی بات سن کر تو لوگوں کو 1977ءکے الیکشن میں حلوہ کی ہونے والی پذیرائی یاد آ گئی ہو گی۔ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو حزب اختلاف یعنی پی این اے میں شامل مولوی حضرات کو عام طور پر حلوہ کھانے والے کہہ کر چڑایاکرتے تھے۔ بہر حال اب ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے اپنے دل جلے خطاب میں سب کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2018ءمیں ہم دھمال ڈالیں گے۔
ویسے خیر سے فاروق ستار صاحب تقریر کرتے ہوئے اب بھی باقاعدہ دھمال ڈالتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ایک اورایم پی اے راضی صاحب برضا و رغبت پی ایس پی میں جا بسے ہیں۔ شاید اس پر فاروق بھائی تلملائے ہوئے ہیں۔ ہلکے پھلکے تو وہ پہلے سے ہیں۔ مگر ایک بھاری بھر کم وجود کے تلے دبے وہ ابھی تک نظر آتے ہیں۔ جب وہ اس سے آزاد ہوں تو حقیقت میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔ فاروق بھائی نے عمران خان کے بارے میں ایک لطیفہ بھی سنایا ہے جو متاثر کن ہے مگر اب کیا کریں یہ کون بتائے گا کہ گل خان لالہ کو بھیجا گیا میسج آخر گلا لئی کے پاس کیسے چلا گیا۔ یہ ضرور کسی دشمن کی شرارت ہو گی۔ اس کا علم شاید فاروق بھائی کو بھی ہے۔ مگر بھگتنا تو خان صاحب کو ہی پڑ رہا ہے۔ اب فاروق بھائی کو کون سمجھائے کہ خدارا خان صاحب کو نہ چھیڑیں وہ پہلے ہی کراچی ہی نہیں پورا سندھ فتح کرنے کے درپے ہیں اگر انہوں نے سب کچھ چھوڑ کر کراچی پر یلغار کر دی تو پھر کیا بنے گا۔
٭....٭....٭....٭
الیکشن کمشن کا این اے 120 میں پرامن ضمنی الیکشن پر اظہار اطمینان
ایسی بھی کیا جلدی ہے الیکشن کمشن والوں کو کہ آنکھیں بند کر کے اطمینان کے لمبے لمبے سانس لینا شروع کر دیئے ہیں۔ ابھی تو صرف میدان سے دھول چھٹی ہے۔ منظر آہستہ آہستہ صاف نظر آئے گا۔ الیکشن کمشن کے اطمینان کی ابھی پہلی قسط بھی تمام نہیں ہوئی تھی کہ پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپنی ہار کے صدمے سے مختل حواس بحال ہوتے ہی الیکشن میں دھاندلی اور 29 ہزار ووٹوں کی تصدیق کرانے کا شوشہ چھوڑ دیا۔ گویا الیکشن کمشن کے اطمینان کی رخصتی کا وقت آ گیا ہے۔ اب ایک بار پھر دھاندلی اور اس کے بعد اور بھی نجانے کون کون سے مراحل سامنے آئیں گے۔
ہاں اگر الیکشن کمشن اس ضمنی الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت پر اطمینان کرے تو وہ برحق ہے۔ الیکشن کے روز معمر افراد ہی نہیں معذور افراد اور بزرگ خواتین بھی جوش و خروش سے ووٹ ڈالنے نکلیں، تصاویر دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے عمر رسیدہ افرادکس طرح فخر کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔ لڑکیاں اور لڑکے سجے سجائے ووٹ ڈالنے نکلے ایک نوبیاہتا جوڑا تو رخصتی سے پہلے ووٹ ڈالنے آ پہنچا کہ وقت نہ ختم ہو جائے۔ یہ شور شرابا جوش و خروش الیکشن میں عوام کی شمولیت کا زندہ ثبوت ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے ووٹ کی طاقت سے آگاہ ہیں۔
٭....٭....٭....٭
حسین نواز کی طرف سے والدہ کیلئے عوام سے دعائے صحت کی اپیل
بیگم کلثوم نواز کی گزشتہ روز لندن کے ہسپتال میں سرجری تھی جس پر انکے فرزند حسین نواز نے عوام سے دعائے صحت کی اپیل بھی کی ہے۔ پاکستان کے عوام پہلے ہی ان کی صحت یابی کیلئے دعا گو رہتے ہیں کیونکہ وہ ایک پرعزم اور حوصلہ مند خاتون ہیں، جس طرح انہوں نے سیاسی جدوجہد کرکے جبر کے بدترین ماحول میں بھی ا پنی پارٹی اور قوم
کا مورال بلند رکھا، اپنے اہل خانہ کی جس طرح حفاظت کی وہ تاریخ میں رقم ہے۔ اس وقت وہ لندن کے ہسپتال میں کینسر جیسے موذی مرض سے اسی طرح لڑ رہی ہیں جس طرح آمرپرویز مشرف سے لڑی تھیں اب بھی پہلے کی طرح کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ حلقہ این اے 120 میں فتح کی نوید بھی ان کیلئے ایک اچھا شگون ہے۔ ان کی غیر موجودگی میں بھی عوام کا ان پر اعتماد کرنا الیکشن جتوانا ان کیلئے خوشی کا باعث ہوگا۔ ان کی کامیابی پر آرمی چیف سے لے کر عام پاکستانی تک نے انہیں مبارکباد دی ہے۔ اسی طرح سب ان کی صحت یابی کیلئے بھی گو ہیں۔ہماری بھی دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوں اور ملک واپس آکر حلف اٹھائیں اور اپنے حلقے کے عوام کے مسائل حل کرکے ان کی مزید دعائیں لیں۔ امید ہے وہ جلد اپنے عوام کے درمیان ہوںگی۔
٭....٭....٭....٭
اشک آباد میں صدر مملکت نے انڈور مارشل آرٹ کے مقابلے دیکھے
جو لوگ کہتے تھے کہ ہمارے صدر مملکت کی کوئی خاص مصروفیات نہیں ہوتیں‘اب انہیں اپنے خیالات پر نظرثانی کرنا پڑے گی کیونکہ آج کل صدر مملکت کی ملکی اور غیر ملکی مصروفیات دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے مصروف ہیں۔ امید ہے اب ان کے ”ویہلے“ ہونے کا پراپیگنڈہ کرنے والے خود شرمندہ ہو رہے ہوں گے۔ ہمارے محترم صدر گزشتہ دنوں ترکمانستان کے دورے پر گئے جہاں انہوں نے مارشل آرٹ کے عالمی مقابلے بھی دیکھے اگر صدر مملکت کو کھیلوں سے شغف ہے تو انہوں نے یہ مقابلے شوق سے دیکھے ہوں گے۔ معلوم نہیں یہ مقابلے دیکھنا بھی ان کی سرکاری مصروفیات میں شامل تھا یا نہیں۔
چلیں اب ایوان صدر اور صدر مملکت کے حوالے سے مرحوم صدر چودھری فضل الٰہی والے لطیفے کی بازگشت کم ہو گی اور لوگ فخریہ بتا سکیں گے کہ ہمارے معزز صدر اس عمر میں بھی جوانوں کی طرح فٹ نظر آتے ہیں اور دیگر سرکاری مصروفیات کے ساتھ کھیلوں کے مقابلے میں دلچسپی سے دیکھتے ہیں ویسے اگر صدر صاحب لاہور میں کرکٹ میچ دیکھنے بھی آ جاتے تو سونے پہ سہاگہ ہوتا مگر شاید انہیں کرکٹ پسند نہیں ہے اس لئے وہ کرکٹ میچ دیکھنے نہیں آئے۔ چلیں کچھ بھی ہو۔کم از کم عوام کو تو پتہ چل گیا کہ ہمارے صدرمحترم کھیلوں میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔