جمعرات‘ 26 محرم الحرام 1436ھ‘20 نومبر 2014ء
آبادی میں اضافے کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے قومی ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔ صدر ممنون۔ معلوم نہیں ہمیں قومی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے یا بچوں کی پیدائش میں بریک۔
آبادی پر کنٹرول کے لئے ہمیں اپنے دوست چین ہی سے سبق حاصل کرنا چاہئے جہاں اس خطرناک حالت سے بچنے کے لئے ایک گھر ایک بچہ کی پالیسی کامیابی سے جاری رکھی گئی اور مطلوبہ نتائج حاصل کئے گئے۔ اب وہاں اس پالیسی میں کچھ نرمی کی گئی ہے۔ ہم سے عقل مند تو بھارت اور بنگلہ دیش والے نکلے جہاں کم بچے پیدا کرنے کی پالیسی کامیابی سے چل رہی ہے۔ یہی حال باقی دنیا کا ہے۔ اور ہم....
اک بچہ اکھیاں دا تارا دوجا بچہ دل دا سہارا
تیجا چوتھا اک مصیبت پنجواں نرا پواڑا
کا شعور رکھنے کے باوجود کچھ نہیں کرتے۔
یہاں سب کچھ الٹا چل رہا ہے۔ معاشی بدحالی اقتصادی تباہ حالی کے باوجود دھڑا دھڑ بچے پیدا کرکے ہم گھریلو زندگی اور زچہ کی صحت بھی تباہ کر رہے ہیں۔ اب کسی کو سمجھاﺅ تو وہ گلے پڑ جاتا ہے۔ ایسی ایسی تاویلات پیش کرتا ہے کہ گویا افلاطون ثانی وہی ہے۔ اب چاہے گھر میں روٹی نہیں، کپڑے نہیں، پیسہ نہیں، دوا نہیں مگر بچوں کی تعداد میں خودکفیل ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ خدا جانے ہمارے مذہبی دانشوروں اور مفکروں کو آگے بڑھ کر آبادی کنٹرول پروگرام میں مدد سے کس نے روکا ہوا ہے۔ ہماری آبادی کا بڑا حصہ ناخواندہ ہے مگر دین سے تعلق رکھتا ہے اور واعظوں کی بات پر غور بھی کرتا ہے۔ اگر وہ اس نیک کام میں بھی حصہ لیں تو ملک میں آبادی کا بڑھتا ہوا بے ہنگم اضافہ کنٹرول ہو سکتا ہے۔
اب اگر صدر ممنون نے حقیقی معنوں میں بڑھتی ہوئی آبادی پر ایمرجنسی نافذ کر دی تو سوچئے کیا ہو گا۔ ہمیں تو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی کی ایمرجنسی یاد آتی ہے جب پورے بھارت میں جبری نس بندی مہم زوروشور سے شروع ہوئی تھی۔ یہ الگ بات کہ اس کا زور صرف مسلمانوں پر تھا۔ اب خدا نہ کرے ہمارے ہاں بھی ایسا ہو۔ اس سے پہلے کہ خاندانی منصوبہ بندی ایمرجنسی نافذ ہو ہمیں چاہئے کہ ہم بچے پیدا کرنے والی ریس ختم کر دیں۔
٭....٭....٭....٭
پیپلزپارٹی تمام پرانے لوگوں کو یوم تاسیس کی تقریب میں لانے کے لئے کوشاں۔ کیا وقت آ گیا کہاں وہ دور کہ ”نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کر دو“ کا نعرہ لگا کر پارٹی کو انکلوں اور بابوں سے پاک کرنے کا غلغلہ برپا تھا۔ اور ایک ایک کرکے سب سے جان چھڑائی گئی۔ کئی تو خود ہی مارے شرم کے ہاتھ چھڑا کر چلے گئے۔
پارٹی کا ایک دور ختم ہوا۔ وضع داری اور مروت کا کلچر بھی پارٹی سے رخصت ہو گیا۔ جو نئے جیالے آئے وہ ”ہے جمالو“ کلچر کے آئینہ دار تھے۔ انہوں نے جی بھر کر اُودھم مچایا۔ بھٹو کی پھانسی تک بھول گئے۔
یہ بی بی کا دور تھا جو ان کے لہو کا خراج لے کر تمام ہوا بی بی کی ناگہانی موت نے سارے قافلے کو دم بخود کر دیا۔ عوام تک کے حواس بجا نہیں تھے کہ پراسرار طریقے سے ایک نامعلوم وصیت کی آڑ میں آصف زرداری نے پارٹی کو بھٹو خاندان سے چھین کر زرداری لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کر دیا۔ اس افراتفری میںبھی بی بی کا لہو رنگ لایا الیکشن میں جیت کر پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو 5 سال زرداری اور زرداروں نے پورے ملک کو اس طرح لوٹا کہ عوام کے ساتھ ساتھ خود پیپلز پارٹی بھی ”گو زرداری گو“ کہنے پر مجبور ہو گئی اور نئے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا پتہ صاف ہو گیا تو آصف زرداری نے بلاول کو میدان میں اتارا۔ اور ....
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
آپ آئے خدا خدا کرکے
اب دیکھنا ہے بلاول زرداری اپنے نانا اور والدہ کی عوامی جماعت میں نیا خون نیا جوش کس طرح لاتے ہیں۔ ابھی بہت سے ان کے نانا اور والدہ کے شیدائی پیپلز پارٹی کے حقیقی جیالے موجود ہیں جو اس کی صحیح رہنمائی کر سکتے ہیں۔ ورنہ ”ہے جمالو“ کہنے والے تو ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ یہ سچے جیالے صرف سندھ میں ہی نہیں پورے پاکستان میں موجود ہیں۔
٭....٭....٭....٭
لندن اور کیمبرج میں ڈاکٹری کرنے والا سرجن تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان بن گیا۔ غالب نے یونہی تو نہیں کہا تھا۔ ....
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
کہاں لندن اور کیمبرج کا پروردہ اعلی تعلیم یافتہ انسان ‘کہاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک اعلی ذہین بیرون ممالک میں معزز پیشے سے منسلک شخص کو آخر ایسی کیا پڑی کہ وہ ایک خون خوار تنظیم میں جا گھسا اور ان کا ترجمان بن گیا۔ کہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اعلی تعلیم بھی انسان کے اندر چھپی حیوانی جبلت کا کچھ نہیں بگاڑ پائی جو کسی نہ کسی وقت کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوکے رہتی ہے۔
اگر ڈاکٹر طارق علی کو خون خرابے سے اتنی ہی دلچسپی تھی تو انہیں لندن اور کیمبرج میں بھی تو سرجن ہونے کے ناطے ایسے بے شمار مواقع دستیاب تھے جہاں وہ قانونی طریقہ سے آپریشن کرکے اپنی حیوانی جبلت کو تسکین پہنچا سکتا تھا۔ بولنے کا شوق تھا تو اعلی تعلیمی اداروں میں لیکچر دے سکتا تھا۔ پیسے کی تو ظاہر ہے انہیں وہاں کوئی کمی نہیں تھی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ امن سے اکتا کر تباہی کی راہ کا مسافر بنا اور ان کا بھونپو بن گیا۔ اب اس پر یورپی ممالک کو سوچنا چاہئے کہ ان کے اپنے شہری کیوں طالبان یا داعش میں شامل ہو رہے ہیں۔ ڈانگ پکڑ کر مسلم ممالک کے پیچھے پڑنا درست نہیں۔ کیونکہ ان ممالک میں تو بے چارے غریب غربا اور کم علم لوگ پیسوں کے لالچ میں ان تنظیموں کے پوسٹر لگاتے یا وال چاکنگ کرتے پکڑے جاتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭