منگل ‘ 24 رمضان المبارک ‘ 1438ھ‘ 20 جون 2017ء
پاکستانی رکشوں کی جاپان میں مقبولیت: برآمد شروع
پاکستانی رکشوں کی جاپان میں مقبولیت کا سن کر یقین نہیں آ رہا کہ ”ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی“ جاپان تو خود دنیا بھر کی کار، ٹرک، بس اور آٹو رکشہ اور موٹر سائیکل انڈسٹری کا امام ہے۔ وہاں اگر ہمارے رکشوں کی مانگ ہے تو ضرور اس میں کوئی کمال ہمارے رکشوں کا ہو گا۔ اس وقت جاپان کی مارکیٹ کو پاکستانی سازگار رکشوں کی ترسیل شروع ہو چکی ہے۔ وہاں کے عوام بطور سواری اور مال برادری دونوں کے لئے اس کو استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستانی رکشوں کی یہ خصوصیت ہے کہ تنگ گلیوں اور اونچی نیچی راہوں پر بھی آسانی سے چلتے ہیں۔ جاپان میں تو ان کی کارکردگی زیادہ بہتر ہو گی کیونکہ وہاں تو سڑکوں اور گلیوں کی حالت ہمارے سے کئی ہزار گنا زیادہ بہتر ہے۔ یہ پاکستانیوں کے لئے خوشی کی بات ہے کہ پہلے ہی پاکستانی ٹرکوں اور بسوں کی دنیا بھر میں دھوم ہے۔ بنانے تیار کرنے کی وجہ سے نہیں ان پر کئے گئے مقامی آرٹ کے نمونوں کی وجہ سے۔ رنگ برنگے یہ ٹرک اور بسیں جہاں جاتی ہیں لوگوں کی توجہ ان پر بنے نقش نگار اور مناظر پر ٹھہر جاتی ہے۔ کوئٹہ کے رکشے بھی ایک زمانے میں ایسی ہی خوبصورت پینٹگز کی وجہ سے زرنگار بنے نظر آتے تھے جو اب خال خال نظر آتے ہیں۔اب رکشوں کو البتہ یہ اعزاز حاصل ہو رہا ہے کہ وہ باقاعدہ جاپان میں فروخت کے لئے پیش ہو رہے ہیں۔ جہاں ان کو سیاحتی مقاصد اور باربرداری کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ پیارے پیارے ناٹے قد والے جاپانی گڈے اور گڈیاں اب اس کی سیر کا لطف اٹھائیں گے۔
....٭....٭....٭....٭....
وزیراعظم نے عمران سے کیا وعدہ پورا کر دیا، کورنگ نالے پر پل کی تعمیر مکمل
بنی گالہ والوں کی طرف سے عرصہ دراز سے کورنگ نالے پر پل کی تعمیر کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ عمران خان بھی نالے پر پل کی تعمیر کے لئے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ مارچ 2014ءمیں وزیراعظم میاں نواز شریف بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کی تو عمران خان نے اس سے پل کے تعمیر کی درخواست کی تھی۔ جس پر وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ جلد کورنگ نالہ کا پل بنوا دیں گے۔ بالاخر یہ پل گزشتہ دنوں مکمل ہو گیا۔ دیر آید درست آید۔ اب بنی گالہ کے عوام کو اس پل کے نہ ہونے سے جو سفری مشکلات درپیش تھیں ان کا خاتمہ ہو گا۔ ویسے یہ بات کتنی حیرت انگیز ہے کہ بنی گالہ کے عام غریب رہائشیوں کو چھوڑیں یہ جو ارب پتی جو وہاں کئی کئی سو کنالوں کے عالی شان محلات کے باسی ہیں کیا وہ خود اپنی مدد آپ کے تحت یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ یہ تو ان کے لئے معمولی سا کام تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں دن رات عوام کے غم میں شمع کی مانند پگھلنے کے دعوے کرتے ہیں۔ مگر اپنے پلے سے عوام پر ایک دھیلا بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ عجب عوام دوستی کے دعویدار ہیں یہ لوگ۔ چلیں جو ہونا تھا سو ہو چکا اب حکومت نے 3 سال میں بالاخر یہ معرکہ بھی سر کر لیا۔ اب بنی گالہ کے غریب رہائشی بارش کے دنوں میں نالہ برد ہونے سے بچ جائیں گے ورنہ بارش کے دنوں میں یہ عالی شان محلات والے تو مزے لیتے اور ان کے پہلو میں کچے پکے گھروں پر مشتمل باقی علاقہ عملاً محصور ہو کر رہ جاتا تھا۔
....٭....٭....٭....٭....
خیبر پی کے میں زونل رویت ہلال کمیٹیوں کا اجلاس مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے ایک روز قبل طلب
کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ اس بات کا کھلم کھلا اعلان ہے کہ اس بار بھی خیبر پی کے میں دو عیدیں منائی جائیں گی۔ جس نے جو کرنا ہے کر لے۔ محکمہ موسمیات والے پہلے ہی 25جون بروز اتوار کو عید کا چاند نظر آنے کا کہہ چکے ہیں۔ جس کے مطابق 26 جون بروز پیر کو عیدالفطر ہو گی۔ مگر پشاور میں مسجد قاسم علی خان سمیت زونل کمیٹیوں کے اجلاس 24جون ہفتہ کو طلب کیا گیا ہے۔ اب یہ معلوم کرنا حکومت خیبر پی کے کی ذمہ داری ہے کہ یہ اجلاس کس نے طلب کیا ہے اور کیوں کیا۔ مسجد قاسم علی کی کمیٹی تو غیر سرکاری کمیٹی ہے جو ہر سال اپنا چاند دکھانے پر مصر رہتی ہے۔ افغان مہاجرین اس کے ساتھ مل کر اپنا چاند چڑھاتے ہیں یوں پاکستان میں دو عیدیں منائی جاتی ہیں۔ اب حکومت نے تو قاسم علی خان مسجد کی کمیٹی کو غیر قانونی قرار دے کر ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا اعلان کر رکھا ہے جو اپنا چن چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے حکومت اپنے اعلان کے مطابق کیا ایکشن لیتی ہے مگر لگتا ہے اس کام میں حکومت کو حسب سابقہ سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا حکومت خیبر پی کے قوم کو ان دو عیدوں سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ یا مرکزی حکومت خود کوئی ایسا راستہ کیوں نہیں نکالتی کہ سب ایک دن روزہ اور ایک ہی دن عید پر متفق ہوں۔ کیا قاسم خان مسجد والے اتنے طاقتور ہیں کہ صوبائی اور مرکزی حکومت ان کو قابو نہیں کر سکتی۔
....٭....٭....٭....٭....
چیمپئنز ٹرافی کی جیت نے پاکستان کو باپ اور بھارت کو بیٹا بنا دیا۔
فادرز ڈے پر پاکستان کرکٹ ٹیم نے شاندار فتح حاصل کی جو بھارتی بڑبولوں کی طرف سے باپ اور بیٹے کی متکبرانہ لفاظی جنگ کا سب سے بہتر اور مناسب جواب تھا جو قابل تعریف بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھارتی ممولے اپنے کو باپ قرار دے کر اپنی طاقت اور مہارت ثابت کرنا چاہتے تھے مگر حقیقت میں پاکستانی شاہینوں نے ان کو شکار کرکے ثابت کر دیا کہ باپ کون ہے۔ پاکستانی ٹیم نے جس طرح پدرانہ شفقت سے بھارتی کرکٹ ٹیم کو بچوں کی طرح لاڈ کے ساتھ کھیلا اس سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ ایک تجربہ کار باپ کس طرح اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو سیدھا کرنا جانتا ہے۔ امید ہے اب انڈیا والوں کو پتہ چل گیا ہو گا کہ ابو کون ہے۔ اس بحث کا آغاز بھارت والوں نے کیا تھا۔ انہیں اپنی ٹیم پر بڑا ناز تھا، غرور تھا انہیں اس کا انجام معلوم نہیں تھا۔ اب تو یہ بحث شروع کرنے والے بھارتی اداکار رشی کپور بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے پاکستان کو باپ تسلیم کرتے ہوئے اپنی شرمناک ہار تسلیم کر رہے ہیں۔ باقی بیچارے ایرے غیرے نتھو خیرے کی تو بات ہی چھوڑیں۔ سوشل میڈیا پر اس بارے میں جو بھرپور بحث چل رہی ہے اس میں اپنی ٹیم کی شکست کے بعد بھارتیوں کے منہ خود بخود بند ہو چکے ہیں۔
....٭....٭....٭....٭....٭....