بدھ ‘23 شوال المکرم ‘ 1435 ھ ‘ 20 ؍ اگست2014ء
محترم مجید نظامی 1950ء سے 1955ء تک نوائے وقت کا معروف کالم ’’سرراہے‘‘ باقاعدگی سے لکھتے رہے جو ان کی حسِ مزاح اور فکاہیہ کالم میں پختگی کا بیّن ثبوت ہے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے محترم مجید نظامی کے تحریر کردہ سرراہے کے منتخب ٹکڑے پیش کئے جا رہے ہیں۔ (ایڈیٹر)
پاکستان میں خیر سگالی کے دوروں کا مرض عام ہو رہا ہے۔ راشد صاحب کا خیر سگالی وفد بھارت گیا۔ مسٹر سچر ایک وفد لے کر پاکستان آ گئے۔ راولپنڈی کے اخبار نویس کیوں پیچھے رہتے۔ انہوں نے بھی ایک وفد بھارت بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب پاکستانی تاجر بھارت جا رہے ہیں۔ خدا کا دیا سب کچھ ہے چودھری خلیق الزمان جنہیں غالباً برعظیم بھارت اور پاکستان میں سب سے پہلے اس مرض کا دورہ پڑا تھا خیرسگالی کے وفد کے ساتھ ہی پاکستان آئے تھے۔ ایسے آئے کہ بس یہیں کے ہو کے رہ گئے۔ بھلا اب وہ اس کارخیر میں کیونکر حصہ نہ لیتے۔ آپ نے بھی ایک خاص وفد بھارت بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن احتیاطاً خود ساتھ نہیں جا رہے۔ اپنے سیکرٹری صاحب کو بھیج رہے ہیں۔ دل کا کیا اعتبار پھر بھارت میں ہی رہنے پر مجبور کر دے۔
٭…٭…٭…٭
لیکن خیر سگالی کے مشن کے سلسلہ میں آپ بہت ماہر ہیں اور آپ کو بہت دور کی سوجھتی ہے۔ آپ نے سوچا لگے ہاتھوں ایک خیرسگالی کا وفد مشرق وسطی کو کیوں نہ لڑھکا دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے پاکستان مسلم لیگ کے پیغام اہل پاکستان کے نظریات اور پاکستان کے حالات سے روشناس کرنے کے لئے ایک مصری ایڈووکیٹ سعید رمضان کی خدمات حاصل کریں۔ مسٹر سعید دو ماہ تک پاکستان میں ٹھہرے رہے اور آپ نے پاکستان کے حالات سے پوری آگاہی حاصل کر لی ہے۔
مسٹر سعید جو خیرسگالی کے وفد کے لیڈر رکن سیکرٹری سب کچھ خود ہی ہیں۔ مشرق وسطی میں پاکستان لیگ کا پیغام سنائیں گے اور یہاں پاکستانی عوام حضرت مفرور الملت کی جان کو رو رہے ہیں کہ مسلم لیگ کا بیڑا غرق کر دو اور بتائو کہ اب اس کا پیغام اور پروگرام کیا ہے؟ لیکن حضرت کو ’’اسلامستان‘‘ کے ٹنڈروں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ مسٹر سعید کہیں ’’اسلامستان‘‘ کی ہی وکالت کرنے تو نہیں گئے؟
(پیر17 جون 1950)
٭…٭…٭…٭
دنیا بھر میں گزشتہ روز ’’یوم انسانیت‘‘ منایا گیا۔ افسوس آج کے دور میں جس ’’انسانیت‘‘ کی بے حد ضرورت ہے ہمارے ملک سے تو عرصہ ہوا کوچ کر چکی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ مر چکی ہے۔ رہی باقی دنیا کی بات تو اگر وہ زندہ ہوتی تو پھر اس کا دن کیوں منایا جاتا۔ اس کی یاد میں کیوں آنسو بہائے جاتے۔ اس کی ضرورت پر زور کیوں دیا جاتا۔ دنیا والے عراق، شام، فلسطین، افغانستان اور کشمیر پر خاموش کیوں رہتے۔ لاکھ دنیا نے مادی ترقی کر لی چاند اور مریخ کو زیر قدم کر لیا مگر سچ تو یہ ہے کہ آج بھی ’’انساں کو میسر نہیں انساں ہونا‘‘ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا۔ طاقتور کمزور کو مار رہا ہے۔ مالدار غریب کو لوٹ رہا ہے کسی کو دوسرے پر ترس نہیں آتا۔ جگر مراد آبادی نے اس صورتحال پہ کیا خوب کہا تھا…؎
انسان کے ہوتے ہوئے انسان کا یہ حشر
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں
آج ’’انسانیت‘‘ کا دن منانے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے اندر مر جانے والی انسانیت کو دوبارہ زندہ کر لیں تو دنیا میں برپا یہ قتل و غارت لوٹ مار ختم ہو سکتی ہے۔ انسان تباہی و ذلالت سے بچ سکتا ہے۔ یہ دنیا جنت کا نمونہ بن سکتی ہے۔ مگر ایسا کرنا مشکل لگتا ہے۔
اگر ہم انسان بن کر انسانیت سے پیار کریں تو ہمیں یہ دن مناتے ہوئے حقیقی مسرت ہو گی۔ شاید یہ آج کے دن کا ہی اثر ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیرکا حل آئین اور انسانیت کی بنیاد پر ہی نکالا جا سکتا ہے۔ مگر ان کے نزدیک انسانیت کا مطلب انسان ہی کا خاتمہ ہے۔
٭…٭…٭…٭
مشرف نے بیرون ملک جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ حالات تو ایسے ہی لگتے ہیں کہ اب مشرف باہر جانے کی بجائے ملک میں رہ کر ہی آزادی کے مزے لوٹنے والے ہیں کیونکہ سیاست دان جس طرح سیاست بازی کرکے جمہوریت کا مردہ خراب کر رہے ہیں۔ اس گندے کھیل میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مشرف کے بارے میں دو آرا ہیں ایک تو یہ کہ انہیں سیاسی افراتفری میں بخیروعافیت بیرون ملک جانے کا موقع ملے گا۔ دوسری رائے یہ کہ جب بانس رہے گا نہ بانسری بجے گی تو وہ خود بخود آزاد فضا میں ان سڑکوں پر گشت کرتے نظر آئیں گے جہاں آج وہ قیدی بنے گزرتے ہیں اور میاں نواز شریف بھی بہ حسرت و یاس ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے مشرف کو دیکھ کر ہاتھ ملتے رہیں گے۔ اور کیا معلوم آنے والے وقت میں ق لیگ کے چودھری برادران کی قسمت بھی جاگ اٹھے اور وہ قادری کو چھوڑ کر مشرف کے پہلو میں آرام کرتے۔ یہ گنگناتے نظر آئیں کہ…؎
نیئں رہ سکدی بن تیرے
تیرے وے ماہی میرے
کی کراں پیار جے ہو یا
اور مولانا قادری ’’جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا‘‘ کی تصویر بنے اپنی ہی شکست کی آواز معلوم ہوں۔ البتہ شیخ رشید تو ’’لڈیاں‘‘ ڈال کر لڈو بانٹتے پھریں گے کیونکہ یہ سب مشرف کے زیراحسان رہے ہیں اور ان کی سرپرستی میں ہی پھل پھول سکتے ہیں اگر آمریت کی آبیاری نہ ہو تو یہ بے چارے اس طرح کملا جاتے ہیں جس طرح آج کل کملائے کملائے نظر آتے ہیں۔ ویسے پنجابی میں دیوانے کو کملا کہتے ہیں۔