اتوار ‘ 29 صفرالمظفر 1439ھ‘19 نومبر2017ئ
بلیک فرائی ڈے پر لوٹ سیل خریداری کرنے والوں میں اکثریت مفلوک الحال امرا کی تھی۔
بلیک فرائی ڈے ابھی تک ہمارے ہاں اتنا پاپولر نہیں جتنا دنیا بھر میں ہے۔ یہاں اب اسے پذیرائی مل رہی ہے۔ مگر یہ دن اپنے نام کی وجہ سہما سہما سالگتا ہے کیونکہ ہمارے مذہبی جذبات کچھ زیادہ سے شدت پسند ہیں۔ ڈر رہتا ہے کہیں دینی جماعتیں جمعہ (فرائی ڈے) کو بلیک (کالا) قرار دینے پر یہ دن منانے کے خلاف بھی کوئی فتویٰ نہ دے دیں۔ دنیا بھر میں یہ دن آن لائن شاپنگ یا عام شاپنگ کرنے والوں کے لئے ایک نعمت ہے‘ خاص طور پر کم آمدنی والوں کے لئے۔ اس روز دنیا بھر میں تجارتی کمپنیاں‘ ڈیپارٹمنٹس سٹورز بہترین برانڈ سے لے کر عام چیزوں تک کی قیمتوں 50 سے 70 فیصد تک کمی کردیتی ہیںتاکہ غریب صارفین اور کم آمدنی والے طبقات فائدہ اٹھا سکیں اور شاپنگ کریں۔ مگر ہمارے ہاں تو اس کا رنگ ہی نرالہ ہے۔
صرف بلیک فرائی ڈے کیا ہمارے ہاں تو عام دنوں میں کہیں سیل کے نام پر لوٹ سیل لگی ہو یا رمضان اور غریبوں کے امدادی پیکج کے نام پر رعایتی نرخوں پر سامان مل رہا ہو وہاں جا کر کبھی نظارہ تو کریں سر پیٹنے کو جی چاہے گا۔ سیل والی دکانوں شاپنگ سنٹر اور تجارتی مراکز کے باہر بڑی بڑی گاڑیوں کی لائنیں لگی نظر آئیں گی‘ تل دھرنے کو جگہ نہیں ملے گی۔ اور اندر امرا کی بیگمات اور دوسری خواتین۔ غریبوں اور کم آمدنی والوں کے لئے لگائی گئی سیل یا بلیک فرائی ڈے پر یوں ٹوٹ پڑتی نظر آئیں گی کہ الحفیظ و الامان۔ اس موقع پر ان تمام خاندانی امیر و کبیر فیملیوں کا پول کھل کر سب کے سامنے آ جاتا ہے۔ جسے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر دیکھ کر غریب خواتین بھی کانوں کو ہاتھ لگاتی ہیں کہ خدا کا شکر ہے وہ اتنی نادیدی اور غریب نہیں کہ دنیا کے سامنے رعایتی سیل کے سامان پر اس طرح لڑتی جھگڑتی چھینا جھپٹی کرتی نظر آئیں۔ یہ سب اعلیٰ خاندانوں‘ پیسے والے گھروں کی امیر کبیر خواتین اپنے حقیقی خاندانی پس منظر کو جس طرح نمایاں کرتی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نودولتیا گھرانے کس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس دن سیل لگانے کا مقصد غریبوں کو متوسط طبقوں کو فائدہ دینا ہوتا ہے۔ وہ بے چارے رہ جاتے ہیں اور یہ دو نمبری امرا اس پر بھی ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس مہنگے سے مہنگا سامان خریدنے کے لئے کافی پیسہ ہوتا ہے۔ مگر خاندانی عادت کہاں بدلتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
پارٹی آفس کا کرایہ ادا نہ کرنے پر شیخ رشید لاہور کی سول عدالت میں پیش
شیخ صاحب نے نجانے کس خوش فہمی یا ترنگ میں آکر ڈیوس روڈ پر ایک پلازہ میں اپنی جماعت کیلئے دفتر کرایہ پر لیا تھا حالانکہ ان کی جماعت کیلئے پورے پاکستان میں لال حویلی کا مقبوضہ دفتر ہی کافی ہیں کیونکہ چاروں صوبوں میں ان کے پاس دفتر میں بٹھانے کیلئے کوئی ایک رکن بھی دستیاب نہیں ہے۔
اب لاہور آفس کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے۔ دفتر تو ہے مگر وہاں کوئی نہیں‘ صرف تالا لگا ہوتا ہے۔ شاید یہ جگہ بھی شیخ صاحب کو بھا گئی ہوگی اور انہوں نے یہاں دفتر کھولنے کے بہانے جگہ کرائے پر لیکر قبضہ کر لیا۔ اب مالک پیچھے پیچھے ہیں اور شیخ جی آگے۔ نہ دفتر بن سکا نہ کوئی دفتر میں بیٹھنے والا ملا۔ الٹا شیخ جی کرایہ بھی دبائے ہوئے ہیں۔ شاید انہوں نے اسے بھی لال حویلی سمجھ لیا ہے۔ اب لگتا ہے مالکان نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے تاکہ یا تو قبضہ واپس لیا جائے یا کرایہ وصول کیا جائے مگر شاید یہ مالکان بھول گئے ہیں کہ شیخ جی سے کرایہ کی وصولی ایسے ہی ہے جیسے چیل کے گھونسلے میں ماس تلاش کرنا۔ وہ تو اپنا بخار تک کسی کو نہیں دیتے۔ یقین نہ آئے تو کبھی (دروغ بر گردن راوی) انہیں صبح کا ناشتہ فراہم کرنے والے ہوٹل والے سے پوچھ لیں۔ شیخ صاحب کا کھاتہ چیک کر لیں۔ وہ بھی ڈیوس روڈ والے دفترکے مالکان کے کرایہ کے کھاتے کی طرح خالی ہی نظرآئے گا۔
فارمز ہاﺅس‘ لال حویلی کے بعد اب یہ تیسری جائیداد شیخ جی بنانے پر تلے نظر آتے ہیں۔ باقی جو پردہ غائب میں ہیں‘ اس کا پتہ نہیں۔ اب عدالت میں کیس زیرسماعت ہے۔ ڈر ہے کہیں دفتر کے مالک الیکشن کمشن‘ نیب یا احتساب کمشن میں دہائی دینے نہ پہنچ جائیں۔ آجکل ویسے بھی سیاستدانوںکے ستارے گردش میں ہیں۔ شیخ صاحب کو بھی جو دوسروں کی الٹی گنتی گنتے نظرآتے ہیں کہیں اپنے ہی ستارے نہ گننے پڑیں۔
٭٭٭٭٭٭
سیسلین مافیا کا خطرناک ترین گاڈ فادر توتورینا 87 برس کی عمر میں چل بسا۔
متوفی توتورینا اٹلی کی ایک جیل میں قید تھے جہاں طویل علالت کے بعد وہ آنجہانی ہو گئے۔ اب سیسلین مافیا اور گاڈ فادر ہمارے ملک میں کوئی اجنبی نہیں رہے۔ پہلے ہالی وڈ کی فلم گارڈ فادر کی وجہ سے فلم بین طبقہ یا ناول اور رسالے پڑھنے کے شوقین اس نام سے واقف تھے۔ کچھ لوگ پاکستانی فلم ”ان داتا“ دیکھ کر گارڈ فادر سے واقف ہوئے۔ اس سے زیادہ مزید کوئی معلومات ان کے بارے میں کسی کو نہ تھیں اور نہ کسی کو ان سے خاص دلچسپی۔
یہ تو پانامہ لیکس کا کمال ہے کہ اس شکنجے میں پھنسے سابق وزیراعظم کے بارے میں زیر سماعت کیسوں کے فیصلے میں عدالت نے گاڈ فادر اور سیسلین مافیا کے لفظ استعمال کئے جس کے بعد وہ بھونچال اٹھا کہ ایک بار پھر سیلین مافیا اور گارڈ فادر زندہ ہو گئے۔ گارڈ فادر کو یوں سمجھ لیں یہ سیلین مافیا کا سب سے خطرناک باس ہوتا تھا۔ آنجہانی توتورینا کو سفاک ترین گاڈ فادر کا اعزاز حاصل تھا جو اٹلی کی ایک جیل میں 26 برس کی سزا بھگت رہا تھا۔ اس پر سیسلین مافیا والوں کو حق ہے کہ وہ ”افسوس ایک چراغ تھا نہ رہا“
والا تعزیتی پیغام اپنے کارندوں کو‘ خیر خواہوں کو ارسال کریں۔ باقی رہی بات آنجہانی کے نقش قدم پر چلنے کی تو اس وقت دنیا میں 12 سے زیادہ خطرناک مافیاز (تنظیمیں) انہی کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ لیکن مقام شکر ہے کہ ان سب کا تعلق یورپ ہے۔ کسی ایشیائی ملک سے نہیں۔
٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر عاصم نے پی پی پی سندھ کی صدارت سے استعفےٰ دے دیا۔
پیپلز پارٹی کراچی کے صدر کے استعفے کی خبر نے سندھ کی سیاست میں کافی ہلچل مچا دی ہے۔ معاملہ تو اس وقت ہی بگڑا لگ رہا تھا جب ڈاکٹر عاصم نے کراچی میں ایم کیو ایم (پاکستان) کے سربراہ فاروق ستار سے ملاقات کی تھی۔ جس کے بعد اطلاعات تھیں کہ پیپلز پارٹی کے رہنما¶ں کو یہ ملاقات ہضم نہیں ہو رہی اور ان کے مزاج بگڑ گئے ہیں۔ جس کے بعد مزید سر پھٹول سے بچنے کے لئے پارٹی رہنما¶ں نے ان کو فارغ کر دیا یا باعزت استعفیٰ طلب کیا تاکہ بات مزید نہ بگڑے۔ ڈاکٹر عاصم کو پی پی پی کا صدر ابھی حال ہی میں ان کی پارٹی کے لئے یا پارٹی کے قائد کے لئے بیش بہا قربانیوں کے صلے میں بنایا گیا تھا۔ وہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ ان پر صرف ساڑھے چار ارب سے زیادہ کی کرپشن کے ساتھ ساتھ ان کے ہسپتال میں دہشت گردی کے علاج معالجے کے الزامات بھی ہیں۔ انہیں گرفتاری کے بعد جیل یاترا کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جس کا بڑا حصہ ہسپتال میں بسر ہوا۔ ان کے مقدمات ابھی تک چل رہے ہیں۔ جو شاید کافی عرصہ چلتے رہیں۔ اسی لئے عدالت نے انہیں علاج کے لئے باہر جانے کی اجازت بھی دے رکھی ہے تاکہ آنا جانا لگا رہے۔ اب فریال تالپور صاحبہ نے ان کی فاروق ستار سے بلااجازت ملاقات کو آڑے ہاتھ لیا اور پارٹی کے قائدین یعنی اپنے بھائی اور بھتیجے سے ان کے خلاف ایکشن کی منظوری لے لی۔ ڈاکٹر عاصم کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے خود استعفیٰ دیا ہے۔ شاید ان کی بات درست ہی ہو کیونکہ بلاول زرداری نے ان کی سابقہ خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں علاج کے بعد آئندہ اہم ذمہ داریاں دینے کا اعلان کیا ہے۔ سچ کیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم ہی جانتے ہوں گے جبکہ پارٹی کے کئی رہنما اپنے صدر کے ساتھ ایسے آمرانہ سلوک سے ناراض بھی نظر آ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭